بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

فتح مکران سے متعلق روایت کی تحقیق اور روایت میں مذکور معاشرتی برائیوں کے زمانہ کی صحیح توجیہ


سوال

  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے دور میں جب اسلام کا لشکر دریائے سندھ کے پاس پہنچا تو ایک صحابی نے یہاں پہنچ کر حضرت عمر کو ایک خط لکھاکہ یہاں بہت ساری معاشرتی برائیاں پائی جاتی ہیں تو حضرت عمر نے فرمایا کہ  آپ برصغیر پاک و ہند کو فتح مت کیجیے اور شمال کی جانب چلے جائیں ۔ 

میرا  سوال ہے کہ کیا اس بات میں کوئی حقیقت ہے یا یہ بات پاکستانی مسلمانوں میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے خلاف جذبات کو ہوا دینے کے لیے پھیلائی جا رہی ہے؟

جواب

تاریخ کی کتابوں میں یہ روایت  موجود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اسلامی افواج  سندھ تک آئی تھیں اورحضرت حکم بن عمرو التغلبی  جو کہ اس لشکر کے امیر تھے ، انہوں نے  سندھ کے  علاقہ مكران کو فتح کرنے کے بعد   حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس  فتح کا پیغام بھیجا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاصد سے یہاں کے احوال دریافت کیے۔  قاصد نے بتایا کہ اے امیر المومنین!اس  زمین  کی نرم جگہ  پہاڑ  ہے، اس کا پانی برفانی تودہ ہے، اس کی کھجوریں چھوٹی ہیں، اس کا دشمن بہادر ہے، اس کی  اچھائیاں  کم ہیں، اس کی برائیاں زیادہ ہیں، اس کی فراوانی کم ہے، اس کا قلیل  ضائع ہے، اس سے آگے   کا حصہ اس سے زیادہ  برا ہے۔

 ان احوال کے سننے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ  عنہ  نے اسلامی  لشکر کو  مزید فتوحات سے روک دیا۔

اس واقعہ سے   یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس بیان کا تعلق اس وقت کے ساتھ ہے جب اس علاقہ    میں غیر مسلم اقوام  آباد تھیں اور مسلم افواج یہاں جہاد  کے لیے آئی تھیں ، یہ بات  موجودہ دور کی آبادی  یا پچھلے دور میں جب  ان علاقوں میں  مسلمانوں کی حکومت   قائم تھی اور یہاں  مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ،ان کے  متعلق  نہیں ہے۔ لہذا موجودہ آبادی پر اسے چسپاں کرنا درست نہیں ہے۔

علامہ ابن جرير طبر ى  (المتوفى: 310ھ)اپنی تاریخ میں اس بابت لکھتے ہیں: 

"قالوا: وقصد الحكم بن عمرو التغلبي لمكران، حتى انتهى إليها، ولحق به شهاب بن المخارق بن شهاب، فانضم إليه، وأمده سهيل بن عدي، وعبد الله بن عبد الله بن عتبان بأنفسهما، فانتهوا إلى دوين النهر، وقد انفض أهل ‌مكران إليه حتى نزلوا على شاطئه، فعسكروا، وعبر إليهم راسل ملكهم ملك السند، فازدلف بهم مستقبل المسلمين. فالتقوا فاقتتلوا بمكان من ‌مكران من النهر على أيام، بعد ما كان قد انتهى إليه أوائلهم، وعسكروا به ليلحق أخراهم، فهزم الله راسل وسلبه، وأباح المسلمين عسكره، وقتلوا في المعركة مقتلة عظيمة، وأتبعوهم يقتلونهم أياما، حتى انتهوا إلى النهر ثم رجعوا فأقاموا بمكران. وكتب الحكم إلى عمر بالفتح، وبعث بالأخماس مع صحار العبدي، واستأمره في الفيلة، فقدم صحار على عمر بالخبر والمغانم، فسأله عمر عن مكران- وكان لا يأتيه أحد إلا سأله عن الوجه الذي يجيء منه- فقال: يا أمير المؤمنين، أرض سهلها جبل، وماؤها وشل، وتمرها دقل، وعدوها بطل، وخيرها قليل، وشرها طويل، والكثير بها قليل، والقليل بها ضائع، وما وراءها شر منها. فقال: أسجاع أنت أم مخبر؟ قال: لا بل مخبر، قال: لا، والله لا يغزوها جيش لي ما أطعت، وكتب إلى الحكم بن عمرو وإلى سهيل ألا يجوزن مكران أحد من جنودكما، واقتصرا على ما دون النهر، وأمره ببيع الفيلة بأرض الإسلام، وقسم أثمانها على من أفاءها الله عليه".

 (‌‌تاريخ الطبري، فتح ‌مكران، (4/ 181 و182)، ط/  دار التراث - بيروت)

حضرت حکم بن عمرو التغلبی نے سندھ کےعلاقہ مکران  کو فتح کرنے کے بعد   حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس  فتح کا پیغام جس شخصیت کے ہاتھ بھیجاتھا، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے  علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی  مذکورہ  امور کا  اختصار کے ساتھ ذکر فرمایا ہے،  ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت  ملاحظہ فرمائیں : 

"صحار بن العباس  :ويقال بتحتانية وشين معجمة، ويقال عابس، حكاهما أبو نعيم. ويقال: ابن صخر بن شراحيل بن منقذ بن عمرو بن مرة العبديّ.قال البخاريّ: له صحبة. وقال ابن السكن: له صحبة، حديثه في البصريين، وكان يكنى أبا عبد الرحمن بابنه.وقال ابن حبّان: صحار بن صخر، ويقال له صحار بن العباس، له صحبة، سكن البصرة ومات بها...قلت: ولصحار أخبار حسان، وكان بليغا مفوّها...وبعثه الحكم بن عمرو الثّعلبي بشيرا بفتح مكران، فسأله عمر عنها، فقال: سهلها جبل، وماؤها وشل، وتمرها دقل، وعدوها بطل، فقال: لا يغزوها جيش ما غربت شمس أو طلعت."

(الإصابة في تمييز الصحابة، حرف الصاد، الصاد بعدها الحاء، (3/ 408 و409 و410)، ط/ دار الجيل بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں