بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تاریخ بیت المقدس اور متعلقہ ابحاث


سوال

1)بیت المقدس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو توڑ کر تخت سلیمانی کو نکالا جائے گا کیا ایسا ہے؟

2)بیت المقدس کو کس طرح پڑھتے ہیں؟ "ق" کے جزم کے ساتھ یا "د" کے تشدید کے ساتھ۔

3) اور بیت المقدس کی تاریخ بھی بیان کردیں۔راہنمائی فرمائیں۔

جواب

1) واضح رہے کہ تختِ سلیمانی کے خاص مقام کی تعیین کہ اس وقت وہ کہاں ہے؟ اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کوہے، اللہ تعالی کے علاوہ کسی کے پاس اس کا علم نہیں، اور نہ ہی کسی نے اس کے مقام کی تعیین کی ہے کہ اس وقت کہاں ہے، اور نہ ہی قرآن و حدیث میں اس کے مقام کی تعیین کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ امت کا دنیا اور آخرت کا کوئی معاملہ اس  مقام کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، اس لیے اس  مقام کی کھوج میں نہیں پڑنا چاہیے، اس کے بجائے وہ امور جو اللہ تعالی نے مسلمان کے ذمہ لازم  کیے ہیں، ان کی بجا آوری کی فکر میں لگنا چاہیے، تاہم یہود بے بہبود نے اپنی عادت کے مطابق (کہ جیسے اللہ تعالی کی کتاب اور اَحکام میں تبدیلی و تحریف کی) یہاں بھی کچھ من گھڑت نظریات اور باتیں پھیلادی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

2)"مقدس " کا صحیح تلفظ (ضبط):

"مقدس"کو  دونوں طرح("د"کی تشدید اور بغیرتشدید کے  پڑھ سکتے ہیں )یعنی " مُقَدَّس،اور "مَقدِس " دونوں طرح سے پڑھا جا سکتا ہے ۔

3)واضح رہے کہ بیت المقدس اپنی بھرپور سیاسی ،سماجی اسلامی اور جغرافیائی تاریخ رکھتا ہے ،جس پر علماء کرام   نے مستقل تصنیفات  لکھی ہیں ،تفصیل کے لیے انہیں تصنیفات کی طرف رجوع کیا جائے ،البتہ خلاصۃ   تاریخ کے آئینے میں "بیت المقدس " کچھ یوں ہے ۔

بیت المقدس کی مختصر تاریخ :

'القدس' فلسطین کا شہر اور دارالحکومت ہے،یہ یہودیوں، مسیحیوں اور مسلمانوں تینوں کے نزدیک مقدس ہے۔ یہاں مسلمانوں کا قبلہ اول مسجد اقصٰی اور گنبد صخرہ واقع ہیں۔

مسجد اقصٰی کی بنیاد مکہ مکرمہ کی بنیاد ڈالنے کے چالیس سال بعد حضرت سیدنا آدم علیہ السلام یا ان کی اولاد میں سے کسی نے ڈالی۔ پھر اس کی تعمیر حضرت سیدنا سام بن نوح علیہ السلام نے کی۔ عرصہ دراز کے بعد حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام نے بیت المقدس کی بنیاد اس مقام پر رکھی جہاں حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ اس عمارت کے پورا ہونے سے قبل حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی وفات کا وقت آگیا تو آپ نے اپنے فرزند ارجمند حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تکمیل کی وصیت فرمائی۔ چنانچہ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام نے جنوں کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اقصٰی کو تعمیر کیا۔

بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، ہجرت کے بعد 16 سے 17 ماہ تک نبی کریمﷺ بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی جانب رخ کر کے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔ مسلمانوں کے نزدیک مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصٰی ہے۔ مقامی مسلمان اسے"المسجد الاقصیٰ" یا"حرم قدسی شریف" کہتے ہیں۔ یہ مشرقی یروشلم میں واقع ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے  ،جس میں  ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے، جبکہ مسجد کے صحن میں بھی ہزاروں افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔ قرآن مجید کی سورہ الاسراء میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: 

سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ اٰیٰتِنَا  اِنَّه هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴿۱

"پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے" (سورہ الاسراء:1)۔

احادیث کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا باعث برکت ہے جن میں مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی شامل ہیں۔ مسجد اقصٰی روئے زمین پر بنائی گئی دوسری مسجد ہے۔

بیت المقدس انبیاء علیہم السلام کی سرزمین فلسطین میں واقع ہے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت ہوئی تو اس وقت اس پر سلطنت روم کے عیسائیوں کا قبضہ تھا اور سلطنت روم اس وقت بہت طاقتور تھی۔ لیکن اسی وقت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیت المقدس کی آزادی کی خوش خبری سنائی اور اس کو قیامت کی نشانیوں میں سے قرار دیا۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت 16ھ    میں بیت المقدس کو یہود و نصاری کے ہاتھوں سے آزاد کرایا تھا۔ اس دور میں بہت سے صحابہ نے تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کی خاطر بیت المقدس میں اقامت اختیار کی۔ سن 66ھ اور 86ھ کے درمیان اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے مسجد اقصٰی کی تعمیر شروع کرائی اور سن 86ھ اور 96ھ کے درمیان  اس کے بیٹے  ولید بن عبد الملک نے اس کی تعمیر مکمل کی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے بھی اس مسجد کی مرمت کرائی۔

بیت المقدس کی یہ مقدس سرزمین تقریباً عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی پھر جیسے جیسے ان میں آپسی اختلاف و انتشار، خانہ جنگی، سیاسی فتنوں اور باطنی تحریکوں کی وجہ سے عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو گھات میں بیٹھے ہوئے صلیبیوں کو موقع مل گیا۔ اور ادھر فاطمی حکومت نے بھی اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام اور شام سے سلجوقیوں کے خاتمے کیلئے ان صلیبیوں سے مدد طلب کی اور انہیں کئی طرح کی سہولتیں فراہم کردیں اور بیت المقدس میں آنے جانے کی اجازت دے دی۔ بالآخر ان تمام باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے بغاوت کردی اور اپنے فاطمی خلفاء کے ساتھ غداری اور دھوکہ کیا۔ اور القدس پر قبضہ کیلئے اپنی فوج کو تیار کرلیا اور پھر 70 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کرتے ہوئے بالآخر 492ھ مطابق سن 1099ء کو صلیبیوں نے بیت المقدس کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ اور یروشلم پر اپنی مسیحی حکومت قائم کردی۔ پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ انہوں نے مسجد میں رہنے کے لیے کئی کمرے بنا لیے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔ انہوں نے مسجد کے اندر اور مسجد کے ساتھ  گرجا بھی بنا لیا۔

پھر اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر 538ھ مطابق سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ اور مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔ اس طرح بیت المقدس دوبارہ مسلمانوں کی  بازیابی میں آگیا اور ارض مقدسہ سے عیسائی حکومت کا صفایہ ہوگیا۔ اس طرح ارض مقدسہ پر تقریباً 761برس مسلسل مسلمانوں کی سلطنت رہی۔ پھر پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران میں انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا۔ یہاں تک کہ 14 مئی 1948ء میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی سازشوں سے ارض فلسطین کے خطہ میں صیہونی سلطنت قائم کی گئی اور جب 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا، تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی، فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہوگئے۔ تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آگئے۔ پھر تیسری عرب اسرائیل جنگ جون 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ اور اس طرح سن 1967ء سے بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کرلیا اور اب پوری طرح ان کے قبضہ میں ہے۔
مزید تفصیل کے لیے(تفسیر حقانی  :جلد پنجم ،ص:63 تا 87  میں انتہائی جاندار تاریخ وتبصرہ موجود ہے جو لائق ِ دید و مطالعہ ہے، ط: الفیصل غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور)

"قصص القرآن"(چار جلدیں)  از مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمہ اللہ،   میں متعلقہ مباحث ۔

"اقصیٰ کے آنسو "(مولانا مفتی ابولبابہ شاہ منصور مدظلہ ) اہم تالیفات ہیں ،ان کی طرف رجوع کیا جائے ،نیز مذکورہ بالا سطور میں پیش کی گئی تاریخ بھی انہیں سے "ملخص"ہے ۔

تاريخ الخميس فی أحوال أنفس النفيس میں ہے:

"وفى المدارك روى أن افريدون جاء ليصعد كرسيه فلما دنا ضرب الاسدان ساقه فكسراها فلم يجترئ أحد بعده أن يدنو منه* وفى رواية ‌لما ‌مات ‌سليمان أخذ ذلك الكرسى بخت نصر فأراد أن يصعد عليه ولم يكن له علم بالصعود عليه فلما وضع قدمه على الدرجة رفع الا سديده اليمنى وضرب ساقه ودق قدمه فلم يزل يتوجع منها حتى مات وبقى الكرسى بانطاكية حتى غزا أكداس ابن كداس فهزم خليفة بخت نصر ورد الكرسى الى بيت المقدس فلم يستطع أحد من الملوك الجلوس عليه والاستمتاع به فوضع تحت الصخرة وغاب فلا يعرف له خبر ولا أثر ولا يدرى أين هو."

(ذكر صفة كرسى سليمان عليه السلام، ج: 1، ص: 250، ط: دار صادر - بيروت)

فتوح البلدان میں ہے :

"‌‌‌المقدس:

في اللغة المنزه، قال المفسرون في قوله تعالى:

ونحن نسبح بحمدك ونقدس لك 2: 30، قال الزجاج: معنى نقدس لك أي نطهر أنفسنا لك وكذلك نفعل بمن أطاعك نقدسه أي نطهره، قال: ومن هذا قيل للسطل القدس لأنه يتقدس منه أي يتطهر، قال:

ومن هذا بيت ‌المقدس، كذا ضبطه بفتح أوله، وسكون ثانيه، وتخفيف الدال وكسرها، أي البيت ‌المقدس المطهر الذي يتطهر به من الذنوب."

(المقدس ،ج:5،ص:166 ،ط:دارصادر)

تہذیب الاسماء واللغات میں ہے :

"قال الجوهري في صحاحه ‌بيت ‌المقدس يشدد ويخفف والنسبة إليه مقدسي مثال مجلسي ومقدسي."

(تهذيب اسماء المواضع ،ج:4،ص:109 ،ط:دارالكتب العلمية)

الصحاح فی اللغۃ والعلوم  میں ہے :

"‌‌[‌قدس]

"القُدْسُ والقُدُسُ: الطُهْرُ، اسمٌ ومصدرٌ. ومنه قيل للجنَّة حظيرة القُدْسِ. وروح القُدُسِ: جبريل عليه السلام. والتَقْديسُ: التطهيرُ. وتَقَدَّسَ، أي تطهَّر. والأرضُ المُقَدَّسَةُ: المطَهَّرةُ. وبيت المُقَدَّسِ والمَقْدِسِ، يشدَّد ويخفَّف، والنسبة إليه مَقْدِسِيٌّ، مثال: مجلِسِيٍّ ومُقَدَّسِيّ."

(قدس ،ص:40 ،73 ،ط:بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں