کیا پھل کو کاٹ کر خریدا جا سکتا ہے؟ جیسے تربوز کو کاٹ کر خریدنا کہ میٹھا ہے یا گلا ہوا تو نہیں ہے؟
صورتِ مسئولہ میں بیچنے والےاور خریدار کی باہمی رضامندی سے تربوز یا کسی بھی پھل کا اس طرح سودا کرنا اگر پھل صحیح اور شرائط کے مطابق ہوگا تو خریدار خریدے گا، ورنہ نہیں خریدے گا، یہ جائز ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 25):
"(شَرَى نَحْوَ بَيْضٍ وَبِطِّيخٍ) كَجَوْزٍ وَقِثَّاءٍ (فَكَسَرَهُ فَوَجَدَهُ فَاسِدًا يَنْتَفِعُ بِهِ) وَلَوْ عَلَفًا لِلدَّوَابِّ (فَلَهُ) إنْ لَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدَ عِلْمِهِ بِعَيْبِهِ (نُقْصَانُهُ) إلَّا إذَا رَضِيَ الْبَائِعُ بِهِ، وَلَوْ عَلِمَ بِعَيْبِهِ قَبْلَ كَسْرِهِ فَلَهُ رَدُّهُ.
(قَوْلُهُ: نُقْصَانُهُ) أَيْ لَهُ نُقْصَانُ عَيْبِهِ لَا رَدُّهُ؛ لِأَنَّ الْكَسْرَ عَيْبٌ حَادِثٌ بَحْرٌ وَغَيْرُهُ.
قُلْت: الْكَسْرُ فِي الْجَوْزِ يَزِيدُ فِي ثَمَنِهِ، فَهُوَ زِيَادَةٌ لَا عَيْبٌ تَأَمَّلْ. (قَوْلُهُ: إلَّا إذَا رَضِيَ الْبَائِعُ بِهِ) أَيْ بِأَخْذِهِ مَعِيبًا بِالْكَسْرِ، فَلَا رُجُوعَ لِلْمُشْتَرِي بِنُقْصَانِهِ."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210201310
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن