بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں لقمہ دینے کا طریقہ ، کب اور کیسا لقمہ دیا جائے؟


سوال

تراویح میں لقمہ  کب اور کیسے  دینا چاہیے؟

جواب

اگر امام سے قرآن پڑھنے میں بھول ہوجائے یا غلط پڑھ لے تو سامع  لقمہ دے سکتا ہے، لقمہ دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ امام مزید تشویش اور التباس میں نہ پڑ جائے، یعنی اگر امام خود درست کر کے پڑھنے کی کوشش کررہا ہو تو پہلے  اس کو موقع دیا جائے، لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے،  اگر امام پھر بھی نہ پڑھ سکے تو لقمہ دیا جائے؛ کیوں کہ مقتدی کے لیے لقمہ دینے کی اجازت  ضرورت کی وجہ سے  ہے، ورنہ مقتدی کا تلاوت کرنا عام حالات میں  ناجائز  ہے    اور اگر سامع مقرر ہے تو وہ ہی لقمہ دے، کوئی اور شخص جلدی نہ کرے۔ البتہ اگر سامع نہ بتاسکے اور امام آگے تلاوت بھی جاری نہ رکھ سکے تو پھر کوئی اور شخص جو نماز میں شریک ہو وہ بھی لقمہ دے سکتا ہے۔ 

اگر امام سے غلطی ہو اور سامع کے لقمہ نہ دے سکنے کی وجہ سے وہ تلاوت جاری رکھے اور غلطی کی وجہ سے معنی میں ایسا فساد نہ آئے جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوتی ہو اور پھر اگلی رکعت یا بعد کی کسی رکعت میں وہ آیت درست کرکے دُہرا لے تو تراویح میں ضرورۃً اس کی گنجائش ہے، البتہ اگر غلطی کی وجہ سے معنیٰ میں ایسا فساد آئے جس سے نماز فاسد ہوجائے تو سامع یا پھر  مقتدیوں میں سے کسی حافظ کو چاہیے کہ وہ لقمہ دے دے، اگر ایسی غلطی کی تصحیح نماز میں نہیں کی گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی۔لقمہ کوئی ایک شخص دے اور اس طرح پڑھے کہ امام کو سمجھ میں آجائے۔  جو شخص نماز میں شریک نہ ہو  وہ لقمہ نہ دے، اگر اس نے لقمہ دے دیا اور امام نے قبول کرلیا تو  امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:

"ولو فتح على غير إمامه تفسد، إلا إذا عنى به التلاوة دون التعليم. كذا في محيط السرخسي، وتفسد صلاته بالفتح مرة، ولا يشترط فيه التكرار، وهو الأصح. هكذا في فتاوى قاضي خان، وإن فتح غير المصلي فأخذ بفتحه تفسد. كذا في منية المصلي، وإن فتح على إمامه لم تفسد، ثم قيل : ينوي الفاتح بالفتح على إمامه التلاوة، والصحيح : أن ينوي الفتح على إمامه دون القراءة، قالوا : هذا إذا أرتج عليه قبل أن يقرأ قدر ما تجوز به الصلاة، أو بعدما قرأ، ولم يتحول إلى آية أخرى، وأما إذا قرأ، أو تحول ففتح عليه تفسد صلاة الفاتح، والصحيح : أنها لا تفسد صلاة الفاتح بكل حال، ولا صلاة الإمام لو أخذ منه على الصحيح. هكذا في الكافي.

ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته؛ لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئا خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي، ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه، وإنه مكروه، بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة، وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي، وتفسير الإلجاء : أن يردد الآية، أو يقف ساكتا. كذا في النهاية.

أرتج على الإمام ففتح عليه من ليس في صلاته، وتذكر، فإن أخذ في التلاوة قبل تمام الفتح لم تفسد، وإلا تفسد؛ لأن تذكره مضاف إلى الفتح، وفتح المراهق كالبالغ ولو سمعه المؤتم ممن ليس في الصلاة، ففتحه على إمامه يجب أن يبطل صلاة الكل؛ لأن التلقين من خارج. كذا في البحر الرائق ناقلا عن القنية.

(کتاب الصلاة، الفصل الأول فیما یفسدها: ج 1، ص 99، ط: حقانیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں