بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ایک سورت شروع کرکے دوسری سورت پڑھنا / متعدد سجدہ تلاوت ایک ساتھ ادا کرنا


سوال

1-  نماز تراویح کے مسائل باقی نماز سے الگ  ہیں کیا ؟   جیسے کہ امام صاحب کو پڑھنا تھا سورہ لہب اور انہوں نے سورہ نصر شروع کر دی،  ابھی  اذا جاء نصر الله  پڑھے  تھے کہ فوراً اسے چھوڑ کر سورہ لہب پڑھنے لگے اور آخر میں سجدہ سہو بھی نہیں  کیا۔ اس طرح دو بار ہوا ،کیا نماز تروایح ہوجائے گی؟

2- دو آیتِ سجدہ کیا ایک ہی بار میں ادا کرسکتے ہیں ؟  یا دو آیت سجدہ بیٹھے بیٹھے کرسکتے ہیں؟

جواب

1-   فرض نماز کی ایک ہی رکعت میں بلاعذر ایسے  کرنا (یعنی ایک سورت شروع کرکے اسے چھوڑ کر  دوسری سورت یا آیات پڑھنا) مکروہ ہے، اور عذر کی صورت میں کراہت نہیں ہوگی۔ البتہ نوافل میں اس کی گنجائش ہے، اور تراویح کا حکم نوافل والا ہے، نیز تراویح میں چوں کہ پورا قرآنِ مجید ایک مرتبہ ختم کرنا سنت ہے، اس لیے  بھی اگر   پڑھنا کہیں اور سے ہو، اور بھول کر دوسری جگہ سے شروع کردے تو یاد آنے پر متعلقہ جگہ سے پڑھنے میں حرج نہیں ہے۔

لہذا اگر امام نے تراویح میں سورت نصر شروع کرکے اسے چھوڑ کر سورۂ لہب تلاوت کی تو نماز صحیح ہوگئی، اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوا۔

2۔۔ بہتر  یہ ہے کہ جس وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی جائے اسی وقت سجدہ تلاوت ادا کرلیا جائے، فقہاءِ کرام نے کسی عذر کے بغیر سجدۂ  تلاوت کو مؤخر کرنے کو مکروہِ تنزیہی (نا پسندیدہ) قرار دیا ہے، البتہ اگر کسی وجہ سے آیتِ سجدہ پڑھنے کے ساتھ  سجدہ تلاوت کرنا رہ جائے تو ایک ساتھ متعدد  سجدہ تلاوت  کرنا بھی درست ہے۔ نیز سجدہ تلاوت کے لیے کھڑے ہوکر سجدے میں جانا ضروری نہیں ہے، بلکہ بیٹھے بیٹھے بھی سجدے میں جاکر سجدہ تلاوت ادا کرسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 546):

"لا بأس أن يقرأ سورة ويعيدها في الثانية، وأن يقرأ في الأولى من محل وفي الثانية من آخر ولو من سورة إن كان بينهما آيتان فأكثر.

(قوله: ولو من سورة إلخ) واصل بما قبله أي لو قرأ من محلين، بأن انتقل من آية إلى أخرى من سورة واحدة لايكره إذا كان بينهما آيتان فأكثر، لكن الأولى أن لايفعل بلا ضرورة؛ لأنه يوهم الإعراض والترجيح بلا مرجح، شرح المنية. وإنما فرض المسألة في الركعتين؛ لأنه لو انتقل في الركعة الواحدة من آية إلى آية يكره وإن كان بينهما آيات بلا ضرورة؛ فإن سها ثم تذكر يعود مراعاة لترتيب الآيات، شرح المنية."

وفیہ ایضا (2/ 109):

"(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيها، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤديا وتسقط بالحيض والردة (إن لم تكن صلوية) فعلى الفور لصيرورتها جزءاً منها.

 (قوله: على المختار) كذا في النهر والإمداد، وهذا عند محمد وعند أبي يوسف على الفور هما روايتان عن الإمام أيضا كذا في العناية قال في النهر: وينبغي أن يكون محل الخلاف في الإثم وعدمه حتى لو أداها بعد مدة كان مؤديا اتفاقا لا قاضيا. اهـ. قال الشيخ إسماعيل وفيه نظر أي لأن الظاهر من الفور أن يكون تأخيره قضاء.

قلت: لكن سيذكر الشارح في الحج الإجماع على أنه لو تراخى كان أداء مع أن المرجح أنه على الفور ويأثم بتأخيره فهو نظير ما هنا، تأمل.

(قوله: تنزيهاً) لأنه بطول الزمان قد ينساها، ولو كانت الكراهة تحريمية لوجبت على الفور و ليس كذلك، ولذا كره تحريماً تأخير الصلاتية عن وقت القراءة إمداد واستثنى من كراهة التأخير ما إذا كان الوقت مكروهًا كوقت الطلوع."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144109201460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں