بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی اجرت کے جواز میں بخاری کی حدیث سے استدلال کی حیثیت


سوال

 تراویح پڑھا کر اُجرت لینا کیساہے؟حال آں کہ  ایک معروف اور بڑے مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ سب سے بہترین اُجرت قرآن کریم کی اُجرت ہے!

جواب

تراویح کی نماز میں قرآن مجید سنا کر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے، تاہم اگر قرآن مجید سنانے والے کو رمضان المبارک میں تمام نمازوں یا ایک دو نماز کے لیے  امام بنا دیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں تو رمضان کے آخر میں تنخواہ کے نام پر کچھ دینا جائز ہوگا۔

اسی طرح اگر نمازی حضرات انفرادی طور پر ہدیہ کے طور پر کچھ دیتے ہیں تو وہ بھی جائز ہے؛ تاکہ حافظوں کی حوصلہ افزائی ہو، البتہ چندہ کرکے دینا یا تنخواہ کے طور پر دینا درست نہیں۔

باقی تراویح کی اجرت کے جائز ہونے میں یہ دلیل پیش کرنا "إن ‌أحق ما أخذتم عليه أجرًا كتاب الله"(البخاری)یعنی’’سب سے بہترین اُجرت قرآن کریم کی اُجرت ہے‘‘ درست نہیں؛ کیوں کہ شارحین حدیث اور فقہاء کے مطابق اس کا تعلق قرآن کے ذریعے دم کرنے اور اس کی اجرت لینے سے ہے جوکہ بلاشبہ جائز ہے، مطلقاً تلاوتِ قرآن کی اجرت لینا جمہور کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ ..... وما استدل به بعض المحشين على الجواز بحديث البخاري في اللديغ فهو خطأ؛ لأن المتقدمين المانعين الاستئجار مطلقا جوزوا الرقية بالأجرة ولو بالقرآن كما ذكره الطحاوي؛ لأنها ليست عبادة محضة بل من التداوي."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه، 6/ 56، 57، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507100531

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں