بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی جگہ فدیہ دینا


سوال

بڑھاپا اور بیماری کی وجہ سے روزوں کا فدیہ ادا کر دیا ہے تو تراویح کبھی آٹھ کبھی کم کبھی زائد ادا ہو پاتی ہے کیا یہ جائز ہے ؟اور روزہ اور تراویح کا تعلق تو الگ الگ ہی ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح سنت مؤکده ہے، بلا عذر اس کو  چھوڑنے  کی عادت بنانے والا یا غیر اہم سمجھ  کر  چھوڑنے والا گناہ گار ہے، خلفاءِ راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلفِ صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے؛ لہذا تراویح کا خوب اہتمام کرنا چاہیے، تاہم شدید (شرعی) عذر جیسے سفرشرعی یا سخت بیماری وغیره کی وجہ سے اگر پڑھنے پر قدرت نہ ہو تو امید ہے کہ الله تعالٰی مؤاخذه نہیں فرمائیں گے۔

لہذا صورت مسئولہ میں بلا عذر پوری تراویح نہ پڑھنا درست نہیں ہےاگر ضعف کی وجہ سے قیام پر قدرت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھے مسجد میں آنا ممکن نہ ہو تو گھر میں پڑھے مگر تراویح کسی صورت میں  ترک نہ کرے۔

نیز واضح رہے کہ روزہ اور تراویح الگ الگ عبادت ہے، ایک دوسرے پر معلق نہیں ہے، باقی روزہ کی وجہ سے دل میں نورانیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے نماز اور تلاوت میں مزہ آتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا.

(قوله سنة مؤكدة) صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: التراويح سنة مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعا؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. ولا ينافيه قول القدوري إنها مستحبة كما فهمه في الهداية عنه، لأنه إنما قال يستحب أن يجتمع الناس، وهو يدل على أن الاجتماع مستحب، وليس فيه دلالة على أن التراويح مستحبة، كذا في العناية. وفي شرح منية المصلي: وحكى غير واحد الإجماع على سنيتها، وتمامه في البحر.(قوله لمواظبة الخلفاء الراشدين) أي أكثرهم لأن المواظبة عليها وقعت في أثناء خلافة عمر - رضي الله عنه -، ووافقه على ذلك عامة الصحابة ومن بعدهم إلى يومنا هذا بلا نكير، وكيف لا وقد ثبت عنه - صلى الله عليه وسلم - «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ» كما رواه أبو داود بحر."

(کتاب الصلوۃ،باب الوتر والنوافل،2/ 43، 44، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144409100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں