بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے بعد نوافل پڑھنے کا حکم


سوال

رمضان میں تراویح کے بعد نوافل مثلا تہجد وغیرہ پڑھ سکتے ہیں؟ کیوں کہ بعض علماء اس سے منع کرتے ہیں کہ تراویح کے بعد نوافل نہ پڑھیں ، بلکہ  صرف ذکرو اذکار پر اکتفاء کریں۔

جواب

واضح رہے کہ تراویح کے بعد نوافل  مثلا تہجد وغیرہ پڑہ سکتے ہیں  کیوں کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وتر کے بعد نوافل کا  پڑھنا ثابت ہے،چناں چہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ  نبی کریم ﷺ وتر کے بعد دو رکعت اور پڑھتے تھے،لہذا جوشخص تراویح  اور وتر کے بعد  نوافل اور تہجد  کا اہتمام کرے گا اس کو ثواب ملے گا۔

عوام کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ جمہور اہل علم کی راۓ پر عمل کرے، بعض اہل علم  کے تفرد  (انفرادی راۓ)سے دور رہے، اور نہ ہی ان کے  تفرد کو موضوع بحث بناۓ، لیکن عوام  پر ساتھ ساتھ یہ بھی   ضروری ہے کہ وہ تمام اہل علم کا یکساں   احترام کرے۔ 

ترمذی شریف میں ہے:

"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا حماد بن مسعدة، عن ميمون بن موسى المرئي، عن الحسن، عن أمه، عن أم سلمة، «أن النبي صلى الله عليه وسلم ‌كان ‌يصلي ‌بعد ‌الوتر ركعتين»: وقد روي نحو هذا، عن أبي أمامة، وعائشة، وغير واحد عن النبي صلى الله عليه وسلم."

(أبواب الوتر،‌‌باب ما جاء لا وتران في ليلة،483/1،ط:دار الغرب الإسلامي)

آثار السنن میں ہے:

"عن خلاس قال: سمعت  عمار بن ياسر رضي الله عنه  وسأله رجل عن الوتر فقال: أما أنا فأوتر ثم أنام فإن قمت صليت ركعتين  ركعتين،رواه الطحاوي."

(كتاب الصلوة، باب لا وتران في ليلة، 179، [رقم الحديث: 667] ،ط:امدادية)

 الدر مع الرد میں ہے:

"(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل ..... قال المحقق تحته في الرد:(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولايعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين، إمداد."

(كتاب الصلوة،369/1،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں