بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کا انکار کرنا


سوال

1۔میرے کچھ دوست ہے جو رمضان میں تراویح سے منکر ہیں  اور کہتے ہیں  کہ تراویح احادیث میں نہیں ہے تو کیوں پڑھے؟ اور اگر ہے بھی تو سنت ہے فرض تو پھر بھی نہیں؟

2َ۔ کیا تراویح نہ پڑھنے سے روزہ قبول نہیں ہوتا؟ 

جواب

1۔تراویح کی نماز سنتِ مؤکدہ ہے، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااجماع ہوچکاہے۔ اگر کوئی شخص  تراویح کا منکر ہو تو وہ سنت اور اجماعِ صحابہ کرام کا مخالف، اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان،سخت گم راہ اور آخرت کے لحاظ سے تباہی اور ہلاکت میں پڑنے والا ہے،آپ کے دوستوں کا  یہ کہنا  کہ تراویح احادیث میں نہیں ہے  یہ سراسر جاہلانہ بات ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین' رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو!  اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ) جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا۔

2۔اگر کوئی شخص تراویح کی نماز نہ پڑھے اور روزہ رکھنے کااہتمام کرے تو روزہ کا فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، لیکن تراویح کے اجر و ثواب سے محروم رہے گا،نیز یہ سوچ کر تراویح چھوڑنا کہ سنت ہی تو ہے فرض تو نہیں یہ سخت محرومی کی بات ہے اور آپ ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا سبب ہے۔

 امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے:

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة و الوتر‘‘.

( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، 496/2، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘. (كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیڈمی )

(المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣)، و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں