بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح شروع ہونے کی صورت میں عشاء کی نماز ادا کرنا اور استماع قران کا حکم


سوال

 قران پاک تلاوت کیا جا رہا ہو تو خاموشی سے سننے کا حکم دیا گیا۔ اب نماز تراویح جاری ہوتی ہے اور کچھ لوگ  عشاء کی باقی نماز شروع کر دیتے ہیں کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح کا وقت عشاء کے فرض کے بعد سے فجر صادق تک ہے اور تراویح کی ۲۰ رکعتیں عشاء کی نماز کے تابع ہیں جیسا کہ عشاء کی دو رکعت سنتیں عشاء کی نماز کی تابع ہیں ، یعنی تراویح کی سنن اور عشاء کی سنن تابع ہونے میں برابر ہیں البتہ  تراویح کی سنن میں جماعت سے ادائیگی افضل اور سنت ہے جب کہ عشاء کی سنتیں انفرادی پڑھنے کا حکم ہے۔

لہذا جس شخص کے ذمہ عشاء کے فرض باقی ہوں اور تراویح کی نماز شروع ہوجائے تو اس شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ پہلے فرض ادا کرے پھر تراویح میں شامل ہو کیونکہ فرض کی ادائیگی کے بعد ہی تراویح ادا کی جاسکتی ہے۔ نیز اگر تراویح شروع ہوچکی ہے اور مذکورہ شخص  کو اتنی تاخیر ہوگئی ہے کہ وہ تراویح شروع ہونے کے بعد اپنے فرض شروع کررہا ہے تو پھر تراویح کی صفوں سے علیحدہ ہٹ کر فرض ادا کرے۔اس صورت میں قرآن کے استماع والے حکم کی خلاف ورزی لازم نہیں آئے گی؛  کیوں کہ   استماعِ  قرآن فرضِ  کفایہ ہے اور مقتدی جو تراویح میں امام کے ساتھ شامل ہیں ، ان کے ذریعہ یہ فرض کفایہ ادا ہورہا ہے، اگر یہ بھی مقتدی ہوتا تو اس پر بھی استماع لازم ہوتا،   جب کہ مذکورہ صورت میں استماع کا ترک عذر شرعی کی وجہ سے ہے ، ہاں یہ ضروری ہوگا کہ جماعت کی صفوں سے ہٹ کر ایک جانب فرض ادا کرے، تراویح کی جماعت کی صفوں میں کھڑے ہو کر انفرادی فرض ادا کرنا مکروہ ہوگا۔

اور جس شخص نے فرض  اد اکرلیے ہوں اور عشاء کی سنتیں اس کے ذمہ باقی ہوں تو ایسا شخص کو چاہیے کہ وہ تراویح کی جماعت میں شامل ہوجائے اور تراویح کے بعد یا تراویح اور وتر کے بعد عشاء کی سنتیں ادا کرلے کیونکہ سنت ہونے اور عشاء کی نماز کے تابع ہونے میں تراویح اور عشاء کی سنتیں برابر ہیں جبکہ تراویح میں جماعت افضل ہے، اور تراویح میں شامل ہونے سے عشاء کی سنن نہ فوت ہوں گے اور نہ مکروہ ہوں( کیونکہ عشاء کی سنن کی تاخیر تراویح کی سنن کی وجہ سے ہے نہ کہ کسی اور عمل کی وجہ سے)،  لہذا تراویح کو علی وجہ الکمال جماعت کے ساتھ ادا کرنے کے بعد سنن ادا کر لی جائیں۔نیز اگر عشاء کی سنتیں شروع کردی ہوں تو پھر اس کو مکمل کرلیا جائے اور پھر تراویح کی جماعت میں شامل ہوجائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"والجواب أنها وإن كانت تبعا للعشاء لكنها صلاة الليل والأفضل فيها آخره، فلا يكره تأخير ما هو من صلاة الليل، ولكن الأحسن أن لا يؤخر إليه خشية الفوات ح عن الإمداد."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر و النوافل، ج نمبر ۲، ص نمبر ۴۴، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"فروع] يجب الاستماع للقراءة مطلقا لأن العبرة لعموم اللفظ»

«(قوله يجب الاستماع للقراءة مطلقا) أي في الصلاة وخارجها لأن الآية وإن كانت واردة في الصلاة على ما مر فالعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب، ثم هذا حيث لا عذر؛ ولذا قال في القنية: صبي يقرأ في البيت وأهله مشغولون بالعمل يعذرون في ترك الاستماع إن افتتحوا العمل قبل القراءة وإلا فلا، وكذا قراءة الفقه عند قراءة القرآن. وفي الفتح عن الخلاصة: رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اهـ أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه، أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم تأمل

مطلب الاستماع للقرآن فرض كفاية

وفي شرح المنية: والأصل أن الاستماع للقرآن فرض كفاية لأنه لإقامة حقه بأن يكون ملتفتا إليه غير مضيع وذلك يحصل بإنصات البعض؛ كما في رد السلام حين كان لرعاية حق المسلم كفى فيه البعض عن الكل، إلا أنه يجب على القارئ احترامه بأن لا يقرأه في الأسواق ومواضع الاشتغال، فإذا قرأه فيها كان هو المضيع لحرمته، فيكون الإثم عليه دون أهل الاشتغال دفعا للحرج، وتمامه في ط. ونقل الحموي عن أستاذه قاضي القضاة يحيى الشهير بمنقاري زاده أن له رسالة حقق فيها أن استماع القرآن فرض عين."

(کتاب الصلاۃ، فصل فی القراۃ، ج نمبر۱، ص نمبر ۵۴۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يقطعها) لعذر إحراز الجماعة كما لو ندت دابته أو فار قدرها، أو خاف ضياع درهم من ماله، أو كان في النفل فجيء بجنازة وخاف فوتها قطعه لإمكان قضائه»

(قوله: يقطعها) قال في المنح: جاز نقض الصلاة منفردا لإحراز الجماعة. اهـ. وظاهر التعليل الاستحباب، وليس المراد بالجواز مستوي الطرفين. وقد يقال إن إحراز الجماعة واجب على أعدل الأقوال فيقتضي وجوب القطع، وقد يقال إنه عارضه الشروع في العمل ط.

(قوله كما لو ندت إلخ) أي هربت، وأشار بذكر هذه المسائل هنا وإن تقدمت في مكروهات الصلاة قبيل قوله وكره استقبال القبلة إلى ما قالوا من أنه إذا جاز القطع فيها لحطام الدنيا ثم الإعادة من غير زيادة إحسان فجوازه لتحصيله على وجه أكمل أولى، لأن صلاة الجماعة تفضل صلاة الفذ بخمس وفي رواية بسبع وعشرين درجة."

(کتاب الصلاۃ، باب ادراک الفریضہ ، ج نمبر ۲، ص نمبر ۵۱، ایچ ایم سعید)

حلبی کبیر میں ہے:

"(و وقته) ..... (بعد العشاء) لا تجوز قبلها سواء كانت بعد الوتر او قبله (و هو المختار) لانها نافلة سنت بعد العشاء بفعل الصحابة و كذا المنقول من فعله عليه الصلاة والسلام فكانت تبعا لها كسنتها الخ."

(تراویح، ص نمبر ۴۰۳،عارف افندی مطبعہ)

حلبی کبیر میں ہے:

"لو دخل بعد ما صلي الامام الفرض و شرع في التراويح فانه يصلي الفرض اولا وحده ثم يتابعه في التراويح ."

(تراویح، فروع، ص نمبر ۴۱۰،عارف افندی مطبعہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں