بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح سنانے والے کو تحائف وغیرہ دینے کا حکم


سوال

تراویح کی نماز پڑھانے پر اجرت لینا کیسا ہے؟ یعنی حافظ صاحب کے بولے بغیر مقتدی حضرات اپنے طرف سے دے دیں۔

جواب

واضح  رہے کہ  اگر کسی علاقے میں تراویح کے موقع پر پیسے لینے دینے کا رواج  اور عرف نہ ہو ، کہ حافظ صاحب کی بہر حال خدمت ہوتی ہو،اور نہ حافظ صاحب سے پہلے سے کچھ متعین کیا ہو، تو ایسی صورت میں اگر نمازی حضرات انفرادی طور پر حافظ صاحب کو ہدیہ کے طور پر کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اور حافظ صاحب کے لیے لینا بھی جائز ہے، لیکن اس کے لیے چندہ کرنا  جائز نہیں ، ایسی صورت معدوم ہے، المعروف کالمشروط کے تحت یہ دینا لینا ناجائز ہی ہے۔

بہتر ہوگاکہ  عین ختم کی رات ختم پر ہی نہ دیں ، بلکہ پہلے جو چاہیں دے دیں۔

مسند أحمد ميں ہے:

"حدثنا خلف، قال: حدثنا أبو معشر، عن سعيد، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تهادوا، فإن الهدية تذهب وغر الصدر "۔

(مسند ابي هريرة،ج:5،ص: 141،ط:الرسالة)

تنقیح فتاوی حامدیہ میں ہے:

"‌ولا ‌شك ‌أن ‌التلاوة ‌المجردة عن التعليم من أعظم الطاعات التي يطلب بها الثواب فلا يصح الاستئجار عليها؛ لأن الاستئجار بيع المنافع وليس للتالي منفعة سوى الثواب ولا يصح بيع الثواب ولأن الأجرة لا تستحق إلا بعد حصول المنفعة للمستأجر والثواب غير معلوم فمن استأجر رجلا ليختم له ختمة ويهدي ثوابها إلى روحه أو روح أحد من أمواته لم يعلم حصول الثواب له حتى يلزمه دفع الأجرة ولو علم حصوله للتالي لم يصح بيعه بالأجرة فكيف وهو غير معلوم بل الظاهر العلم بعدم حصوله؛ لأن شرط الثواب الإخلاص لله تعالى في العمل والقارئ بالأجرة إنما يقرأ لأجل الدنيا لا لوجه الله تعالى بدليل أنه لو علم أن المستأجر لا يدفع له شيئا لا يقرأ له حرفا واحدا خصوصا من جعل ذلك حرفته ولذا قال تاج الشريعة في شرح الهداية إن قارئ القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ."

(كتاب الإجارة، ج:2، ص:127، ط: دار المعرفة)

فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں مذکورہےکہ:

’’مصلیوں میں سےاگر کوئی صاحب ِ خیر حافظ صاحب کے افطار وسحری وغیرہ کا انتظام کردیں اور آخر میں بطورِ ہدیہ یا بطورِ امداد کچھ پیش کریں تو یہ قابلِ اعتراض نہیں ، بطورِ اجرت دینا ممنوع ہے۔‘‘

(مسائل تراویح، ج:6، ص:257، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100779

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں