بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح پڑھانے والے کو اجرت دینا


سوال

 آج کل ہمارے علاقہ میں اس امر کا رواج ہے کہ رمضان میں ایک ایسے حافظ  کو منتخب کیا جاتا ہے جو پورے ۲۰-۲۷ دنوں تک ہمیں تراویح پڑھاتے ہیں۔ اور اس درمیان وہ گھر بھی نہیں جاسکتے۔ اور نہ کوئی دوسرا عمل کرکے روزی  حاصل کرسکے  تو  کیا اس طرح کی  حالت  میں ان کو اجرت دی جاسکتی ہے؟ جیساکہ ہمارے مدارس کے اساتذہ کو دی جاتی ہے؛ کیوں کہ اگر ہم ان کو اجرت نہیں دیں گے تو ان کے بال بچوں کا کیا بنے گا؟ اور جب ہم دیں تو اس اجرت کو اکرام اور برّ پر محمول کرکے دیں؟ جیسا کہ ایک مفتی صاحب  فرمایا کرتے تھے؟ اور اگر نہیں دے سکتے تو ایسے حفاظ کرام کا خرچ کون اپنے ذمہ لے گا؟

جواب

تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا،اس حالت میں بہترہےکہ ''الم ترکیف'' سےتراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔

البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں  سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیاہ دہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی ۔اسی طرح اگر بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔(کفایت المفتی ،3/،410۔395)

سائل نے جو صورت ذکر کی ہے کہ حافظ صاحب کو بیس دن یا ستائیس دن اسی مسجد میں قیام کرنا پڑتا ہے، اس صورت میں بھی یا تو حافظ صاحب کے ذمے فرض نماز کی امامت  لگادی جائے یا کوئی اور خدمت سونپ دی جائے، مثلًا: لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینا وغیرہ، اور اس کی تنخواہ مقرر کردی جائے، بصورتِ دیگر (محض تراویح سنانے کے عوض) اکرام یا برّ کے نام سے اجرت دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 

جمہور  کی رائے اس مسئلہ میں عدمِ جواز کی ہے، لہٰذا اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ 

شامی میں ہے:

"فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!! اهـ"

(حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 56)، -[كتاب الإجارة]-[مطلب في الاستئجار على المعاصي]- ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں