رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے والے قاری صاحبان کو مسجد کی طرف سے بطورِ خدمت رقم پیش کی جاتی ہے جس کے لیے تراویح میں خاص طور پر چندہ ہوتا ہے، چندہ کم ہونے کی صورت میں قاری صاحباں کو مسجد کے فنڈ میں سے رقم دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا،اس حالت میں بہتر ہے کہ مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔
البتہ اگر حافظ کو رمضان المبارک کے لیے نائب امام بنادیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور اس خدمت کے عوض تنخواہ کے عنوان سے اسے کچھ دے دیا جائے (خواہ وہ زیاہ دہو یا کم) تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہوگی، اور اس صورت میں مسجد فنڈ سے بھی یہ تنخواہ دی جاسکتی ہے۔اسی طرح اگر بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہو اور نہ وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔
(کفایت المفتی ،3/،410۔395)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109202333
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن