بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراويح پر اجرت لینے کا حکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا تراویح کا پیسہ لینا جائز ہے ؟ میں جس مسجد میں بحیثیتِ امام تراویح کا قیام کرتا ہوں، اس مسجد کا نظام یہ ہے کہ جو تراویح کے نام سے پیسہ جمع ہوتا ہے وہ مسجد کے متولی پاس رہتا ہے اور متولی صاحب اس کو کئی جگہ تقسیم کرتے ہیں ، تقسیم کرنے سے مراد یہ ہے کہ تراویح کے پیسوں سے جو اعتکاف میں بیٹھتا ہے اس کو چار ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ، اسی تراویح کے پیسوں سے ایک مفتی صاحب آتے ہیں رمضان میں جمعے میں بیان کرنے کے لیے ان کو بھی تین ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ، اسی تراویح کے پیسوں سے جو اصل امام ہیں، ان کی عدمِ موجودگی میں (امام صاحب کی چھٹی یا پھر بیماری کے ایام میں) ایک صاحب نماز پڑھانے کے لیے آتے ہیں، ان کو دس ہزار روپیہ دیا جاتا ہے ، اس کے بعد جو رقم بچتی ہے، اس میں آدھا آدھا کرکے (تراویح سننے والے کو اور سنانے والے کو) دونوں کو دیا جاتا ہے ۔

میرا سوال یہ ہے کہ جو رقم تراویح کے نام پر جمع ہوتی ہے، اس کو دیگر لوگوں میں (جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے) تقسیم کرنا درست ہے ؟

جواب

واضح رہےکہ تراویح پڑھانے والے کو دینے کے لیے پیسے جمع کرنا،متولی کا تراویح پڑھانے والے کووہ پیسے  دینا اور اس کا لینا،یہ سب ناجائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں،اگر سائل کو رمضان کے پورے مہینے کے لیے اس مسجد کا مستقل یا صرف عشاء کی نماز کاامام بنادیا جائے،اور نماز اور تراویح دونوں پڑھانا،اسی کے ذمے ہوں،تو سائل کے لیے طت شدہ تنخواہ کے طور پیسے لینا جائز ہوگا،لیکن اگر صرف تراویح پڑھانے کے لیے سائل اس مسجد میں قیام کرتا ہے،اور باقاعدہ امام کوئی اور ہے،تو اس صورت میں کسی کے لیے تراویح کے نام سے چندہ کرنا  ہی جائز نہیں۔

رہی بات چندے کے پیسوں کو دوسرے مصارف میں استعمال کرنے کی،تو اس کی تفصیل یہ ہےکہ اگرمتولی پیسہ جمع کرتے ہوئے کسی خاص مصرف کی صراحت نہ کرتا ہو، اور مسجد کے تمام کاموں کے لیے علی الاطلاق یہ پیسے دیے جاتےہوں اور کوئی قید نہ لگائی جاتی ہو،تو ان کو مسجد کے تمام مصالح میں، قاعدے کے مطابق،خرچ کرنا جائز ہوگا،لیکن اگر متولی ان پیسوں کو کسی خاص مصرف میں استعمال کرنے کی صراحت کرکے وہ پیسے لیتا ہے،توچوں کہ متولی ان پیسوں کا امین ہے،اس لیے دینے والوں کی اجازت کے بغیر، اس کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ۔

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز ‌الإستئجار عليها عندنا لقوله - عليه الصلاة والسلام :اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به، وفي آخر ما عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى عمرو بن العاص "وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا" ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة...قال في الهداية: وبعض مشايخنا  رحمهم الله تعالى استحسنوا الإستئجار على تعليم القرآن اليوم لظهور التواني في الأمور الدينية، ففي الإمتناع تضييع حفظ القرآن وعليه الفتوى اهـ، وقد اقتصر على استثناء تعليم القرآن أيضا في متن الكنز ومتن مواهب الرحمن وكثير من الكتب، وزاد في مختصر الوقاية ومتن الإصلاح تعليم الفقه، وزاد في متن المجمع الإمامة، ومثله في متن الملتقى ودرر البحار.وزاد بعضهم الأذان والإقامة والوعظ...وقد اتفقت كلمتهم جميعا على التصريح بأصل المذهب من عدم الجواز، ثم استثنوا بعده ما علمته، فهذا دليل قاطع وبرهان ساطع على أن المفتى به ليس هو جواز الإستئجار على كل طاعة بل على ما ذكروه فقط مما فيه ضرورة ظاهرة تبيح الخروج عن أصل المذهب من طرو المنع...فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ."

(ص:55،ج:6،كتاب الإجارة ،مطلب في الإستئجار علي الطاعات،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه ايضا:

"وهو إقامة الغير مقام نفسه ترفها أو عجزا في تصرف جائز معلوم."

(ص:510،ج:5،كتاب الوكالة،ط:ايج ايم سعيد)

وفيه ايضا:

"ليس للمتولي أخذ زيادة على ما قرر له الواقف أصلا ويجب صرف جميع ما يحصل من نماء وعوائد شرعية وعرفية لمصارف الوقف الشرعية."

مطلب فيما يأخذه المتولي من ‌العوائد ‌العرفية،قوله: ويجب صرف إلخ، ... جميع ما تحصل من الوقف من نماء وغيره مما هو من تعليقات الوقف يصرف في مصارفه الشرعية كعمارته ومستحقيه."

(ص:450،ج:4،كتاب الوقف،مطلب فيما يأخذه المتولي من ‌العوائد ‌العرفية،ط:ايج ايم سعيد)

"ألجوهرة النيرة"میں ہے:

"‌لا ‌يجوز للوكيل أن يتصرف إلا فيما جعل إليه."

(ص:245،ج:2،کتاب آداب القاضی،ط:ألخيرية)

"ألبناية شرح الهداية"میں ہے:

"والأفضل أن لا يعطى القارئ شيئا. وفي" الواقعات": يمنع القارئ والآخذ والمعطي آثمان."

(ص:237،ج:12،كتاب الكراهية ،مسائل متفرقة،ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں