بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں سامع کو کب لقمہ دینا چاہیے؟


سوال

تراویح میں سامع کے لقمہ دینے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے اگر تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب سے کسی آیت میں بھول ہو گئی اور انہوں نے اس آیت کو ترک کر کے آگے پڑھنا شروع کر دیا یا اس صفحے کو ترک کر کے آگے پڑھنا شروع کر دیا تو سامع لقمہ دے یا نہ دے ؟

جواب

اگر امام سے قرآن پڑھنے میں بھول ہوجائے تو سامع  لقمہ دے سکتا ہے، لقمہ دیتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ امام مزید التباس اوراشتباہ میں نہ پڑ جائے، یعنی اگر امام صحیح طور پر پڑھنے کی کوشش کررہا ہو تو اولاً اس کو موقع دیا جائے، لقمہ دینے میں جلدی نہ کی جائے،  اگر امام پھر بھی نہ پڑھ سکے تو لقمہ دیا جائے،کیوں کہ صرف ضرورت کے وقت  مقتدی کے لیےامام کو لقمہ دینے کی اجازت ہے،    اور اگر سامع مقرر ہے تو وہ ہی غلطی بتائے، کوئی اور شخص جلدی نہ کرے۔ البتہ اگر سامع نہ بتاسکے اور امام آگے تلاوت بھی جاری نہ رکھ سکے تو پھر کوئی اور شخص جو نماز میں شریک ہو وہ بھی لقمہ دے سکتا ہے۔ 

اگر امام سے غلطی ہو اور سامع کے لقمہ نہ دے سکنے کی وجہ سے وہ تلاوت جاری رکھے اور غلطی کی وجہ سے معنی میں ایسا فساداورخرابی  نہ آئے جس کی وجہ سے نماز فاسد ہوتی ہو اور پھر اگلی رکعت یا بعد کی کسی رکعت میں وہ آیت درست کرکے دُہرا لے تو  اس کی گنجائش ہے۔ البتہ اگر غلطی کی وجہ سے معنیٰ میں ایسا فساد آئے جس سے نماز فاسد ہوجائے تو سامع ورنہ مقتدیوں میں سے کسی حافظ کو چاہیے کہ وہ لقمہ دے دے، اگر ایسی غلطی کی درستگی نماز میں نہیں کی گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی ،نیز واضح رہے کہ لقمہ  دینے  والے   کاامام کے ساتھ نماز میں شامل(مقتدی) ہوناضروری ہے۔

"شرح أبي داود للعيني "میں ہے:

"قوله: " فما يَمنعك" أي: من الفَتْح؛ وهذا فيه تصريح على جواز الفتح على إمامه، وتقييد بأن الفتح إنما يجوز إذا كان ممنْ هو في صلاته."

(کتاب الصلواۃ ،باب النھي  عن التلقین 4 / 131،ط:مکتبۃ الرشد ریاض)

"المبسوط للسرخسي"میں ہے:

"والفتح على الإمام لا يفسد الصلاة) يعني المقتدي، فأما غير المقتدي إذا فتح على المصلي تفسد به صلاة المصلي، وكذلك المصلي إذا فتح على غير المصلي؛ لأنه تعليم وتعلم، والقارئ إذا استفتح غيره فكأنه يقول: بعد ما قرأت ماذا فذكرني، والذي يفتح عليه كأنه يقول بعد ما قرأت كذا فخذ مني، ولو صرح بهذا لم يشكل فساد صلاة المصلي، فأما المقتدي إذا فتح على إمامه هكذا في القياس، ولكنه استحسن لما روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم قرأ سورة المؤمنين فترك حرفًا، فلمافرغ قال: ألم يكن فيكم أبي؟ فقالوا: نعم يا رسول الله، فقال: هلا فتحت علي! فقال ظننت أنها نسخت، فقال: لو نسخت لأنبأتكم بها» وعن علي - رضي الله تعالى عنه - قال: إذا استطعمك الإمام فأطعمه وابن عمر قرأ الفاتحة في صلاة المغرب فلم يتذكر سورة، فقال نافع: {إذا زلزلت الأرض زلزالها} [الزلزلة: 1] فقرأها، ولأن المقتدي يقصد إصلاح صلاته، فإن قرأ الإمام فلتحقق حاجته قلنا لاتفسد صلاته."

(کتاب الصلواۃ ،باب الحدث  في الصلواۃ، 1 / 193 ط:دارالمعرفة بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308102248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں