بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں دیکھ کر قرآن پڑھنا


سوال

تراویح میں دیکھ کر قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ مکہ میں تو لوگ تراویح میں قرآن پاک دیکھ کر بھی پڑھتے تھے، اس حوالہ سے کوئی دلیل ہے؟

جواب

فرض اور نفل نماز میں قرآن مجید دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں، اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے کہ  یہ عمل کثیر  میں داخل ہے، نیز اس میں خارجِ صلاۃ سے تعلیم و تلقین بھی پائی جاتی ہے؛  لہذا  تراویح میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

 نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں لکھا ہے :  ”جب آپ نماز پڑھتے تو نگاہ کو زمین کی طرف لگائے رکھتے تھے۔“ (أصل صفة صلاة النبی  ﷺ ۲۳۰)

نیز حدیث میں ہے: "فَإِذَا صَلَّیْتُمْ فَلَاتَلْتَفِتُوْا فَإِنَّ اللّٰه یَنْصِبُ وَجْهَه لِوَجْهِ عَبْدِه فِيْ صَلَاتِه مَا لَمْ یَلْتَفِتْ"․ (سنن الترمذی، حدیث: ۲۸۶۳، مستدرک الحاکم، حدیث:۸۶۳)

ترجمہ: ”جب نماز پڑھو تو اِدھر اُدھر نہ دیکھو؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نماز میں اپنا رُخ بندہ کے چہرہ کی طرف اس وقت تک کیے رکھتے ہیں؛ جب تک بندہ اپنا رخ نہیں پھیرتا۔“

ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "کانوا یستحبون أن ینظر الرجل في صلاته إلی موضع سجوده"․ (تعظیم قدر الصلاة:۱/۱۹۲)

ترجمہ: ”صحابہ کرام اسے مستحب سمجھتے تھے کہ آدمی نماز میں اپنی نگاہ سجدہ کی جگہ پر رکھے۔“

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (4 / 73):

"(قوله: وقراءته من مصحف) أي يفسدها عند أبي حنيفة، و قالا: هي تامة؛ لأنها عبادة انضافت إلى عبادة إلا أنه يكره؛ لأنه تشبه بصنيع أهل الكتاب، ولأبي حنيفة وجهان: أحدهما أن حمل المصحف والنظر فيه وتقليب الأوراق عمل كثير، الثاني أنه تلقن من المصحف فصار كما إذا تلقن من غيره، و على هذا الثاني لا فرق بين الموضوع والمحمول عنده، وعلى الأول يفترقان، وصحح المصنف في الكافي الثاني، وقال: إنها تفسد بكل حال تبعًا لما صححه شمس الأئمة السرخسي، و ربما يستدل لأبي حنيفة كما ذكره العلامة الحلبي بما أخرجه ابن أبي داود عن ابن عباس قال: نهانا أمير المؤمنين أن نؤم الناس في المصحف؛ فإن الأصل كون النهي يقتضي الفساد وأراد بالمصحف المكتوب فيه شيء من القرآن، فإن الصحيح أنه لو قرأ من المحراب فسدت كما هو مقتضى الوجه الثاني، كما صرحوا به، و أطلقه فشمل القليل والكثير وما إذا لم يكن حافظًا أو حافظًا للقرآن وهو إطلاق الجامع الصغير".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 623):

"( وقراءته من مصحف ) أي ما فيه قرآن ( مطلقًا ) لأنه تعلم إلا إذا كان حافظًا لما قرأه وقرأ بلا حمل وقيل: لاتفسد إلا بآية".

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين ابن مازة - (2 / 77):

"وإذا قرأ المصلي من المصحف فسدت صلاته، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد: لاتفسد. حجتهما: أن عائشة أمرت ذكوان بإمامتها وكان ذكوان يقرأ من المصحف، ولأبي حنيفة وجهان: أحدها: إن حمل المصحف وتقليب الأوراق والنظر فيه والتفكر ليفهم ما فيه فيقرأ عمل كثير، والعمل الكثير مفسد لما نبيّن بعد هذا، وعلى هذا الطريق يفرق الحال بينهما إذا كان المصحف في يديه أو بين يديه أو قرأ من المحراب والله أعلم". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں