بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختم قرآن کے موقع پرملنے والے ہدایا اور تحائف کا حکم


سوال

 ایک  حافظ  صاحب  غریب ہیں، نیز ایک لاکھ دس ہزار روپے  کے مقروض بھی ہیں ، تو کیا ان  کے لیے تراویح کا ہدیہ لینے کی گنجائش نکل سکتی  ہے  ؟

جواب

تراویح  کی نماز  میں قرآنِ مجید سنا کر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں، لینے اور  دینے والے دونوں گناہ گار  ہوں گے، اگر بلا اجرت  تراویح  میں مکمل قرآنِ  پاک  سنانے والا کوئی  دست یاب  نہ ہو تو ایسی صورت  میں بہترہےکہ مختصر سورتوں سے تراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائے گی۔

تاہم  اگر  قرآنِ مجید  سنانے والے کو رمضان المبارک میں تمام نمازوں یا ایک دو نماز کے لیے نائب امام بنا دیا جائے اور اس کے ذمے  ایک یا دو نمازیں سپرد کردی جائیں اور  رمضان کے آخر میں تنخواہ کے نام پر کچھ دینا جائز ہوگا۔

اسی طرح   اگر  تراویح پڑھانے کی اگر کوئی اجرت طے نہ کی گئی ہو  اور  حافظ صاحب کی طرف سے مطالبہ بھی نہ ہو اور تحفہ تحائف نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اوردینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو  ایسی صورت میں   ختمِ قرآن کے موقع پر  اگر بلا تعیین تراویح پڑھانے والے کو کچھ تحفہ تحائف (پیسے یا سوٹ وغیرہ کی شکل میں) ہدیہ ، تحفہ یا عیدی وغیرہ کے نام سے دیا جائے تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہے۔  (مأخوذ از کفایت المفتی ،3/،410۔395)

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 56):

"فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!! اهـ"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں