بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختمِ قرآن کے دوران خلافِ ترتیب پارے پڑھنے کا حکم


سوال

بندہ ایک جگہ تراویح پڑھ رہا ہےاور ایک حافظ پڑھا رہا وہ کہتا ہے کہ  پندرہ سپارے میں پڑھونگا پندرہ آپ اور دس دن میں ختم کرنا ہے لیکن اسے قرآن یاد نہیں تو 2 سپارے پڑھتا ہے روازنہ اس حساب سے دس دن میں ختم ممکن نہیں تو کیا یہ صورت جائز ہے کے قرآن دو جگہوں سے پڑھا جائے وہ جتنا پڑھے پہلے پندرہ سپاروں میں باقی میں دوسرے پندرہ سے پڑھوں تاکہ روزانہ سپاروں کی تعداد پوری کی جاسکے دس دن کے حساب سے۔

جواب

تراویح کی نماز میں ایک مرتبہ ترتیب سے قرآنِ کریم کی تکمیل سنت ہے، اس لیے تراویح میں قرآنِ کریم سناتے ہوئے ترتیب سے ہی پڑھناچاہیے۔تراویح کی نماز میں قرآن کریم کی موجودہ ترتیب سے ہٹ کر قراءت کرنا  امت کے متوارث طریقے اور تعامل  کے خلاف ہے ؛ اس لیے تراویح کی نماز میں قرآنِ کریم کو موجودہ ترتیب کے برخلاف پڑھنا (یعنی کچھ رکعتوں میں شروع کے پارے اور کچھ رکعتوں میں آخر کے پارے پڑھنا) مکروہ ہے۔ البتہ اگر  ترتیب سے قرآنِ مجید پڑھتے ہوئے کسی آیت میں غلطی آجائے یا کچھ آیات رہ جائیں اور  اگلی رکعات میں یا آئندہ روز کی تراویح میں چھوٹی ہوئی آیات تلاوت کی گئیں تو اب دوبارہ  پوری مقدار بالترتیب تلاوت کرنا ضروری نہیں ہے، اسی طرح  ایک مرتبہ قرآن کریم سننے یا سنانے کی سنت مکمل ہوگئی ہو تو اب  باقی تراویح وہ قرآنِ مجید میں کہیں سے بھی چاہے ترتیب کے مطابق  پڑھ سکتا ہے، (یعنی ہر دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں جہاں سے تلاوت کرے دوسری رکعت میں اس کے بعد والی سورت یا آیات تلاوت کرے، الٹ نہ پڑھے ) ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ دونوں حافظ اگر روزانہ تین پارے پڑھ کر 10 دن میں قرآنِ کریم کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں اور آپ کا ساتھی 2 پارے سے زیادہ نہیں سناسکتا ہے تو جب وہ دو پارے سناچکے تو آپ اگلے 15 پاروں میں سے ایک پارہ پڑھنے کے بجائے اپنے ساتھی کے پڑھے گئے 2 پاروں کے بعد والا پارہ پڑھ لیں تاکہ روزانہ کے 3 پارے بھی مکمل ہوتے رہیں اور قرآنِ کریم کا ختم (تکمیل) بھی ترتیب سے ہی ہو۔

مناهل العرفان في علوم القرآن "میں ہے:

"وقد كره جماعة مخالفة ترتيب المصحف. وروى ابن أبي داود عن الحسن أنه كان يكره أن يقرأ القرآن إلا على تأليفه في المصحف. وبإسناده الصحيح عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه أنه قيل له: إن فلانا يقرأ القرآن منكوسا فقال: ذلك منكوس القلب."

(المبحث التاسع: في ترتيب آيات القرآن وسوره، ترتيب السور، 1/ 359 ط: مطبعة عيسى البابي الحلبي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "ويكره الفصل بسورة قصيرة وأن يقرأ منكوساً، إلا إذا ختم فيقرأ من البقرة. وفي القنية: قرأ في الأولى "الكافرون" وفي الثانية "ألم تر"  أو " تبت" ،  ثم ذكر يتم، وقيل: يقطع ويبدأ، ولا يكره في النفل شيء من ذلك.

 (قوله: وأن يقرأ منكوساً) بأن يقرأ في الثانية "سورة أعلى" مما قرأ في الأولى؛ لأن ترتيب السور في القراءة من واجبات التلاوة؛ وإنما جوز للصغار تسهيلاً لضرورة التعليم ط (قوله: إلا إذا ختم إلخ) قال في شرح المنية: وفي الولوالجية: من يختم القرآن في الصلاة إذا فرغ من المعوذتين في الركعة الأولى يركع ثم يقرأ في الثانية بالفاتحة وشيء من سورة البقرة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «خير الناس الحال المرتحل»، أي الخاتم المفتتح اهـ (قوله: وفي الثانية) في بعض النسخ: وبدأ في الثانية، والمعنى عليها (قوله: ألم تر أو تبت) أي نكس أو فصل بسورة قصيرة ط (قوله: ثم ذكر يتم) أفاد أن التنكيس أو الفصل بالقصيرة إنما يكره إذا كان عن قصد، فلوسهواً فلا، كما في شرح المنية. وإذا انتفت الكراهة فإعراضه عن التي شرع فيها لا ينبغي. وفي الخلاصة: افتتح سورة وقصده سورة أخرى، فلما قرأ آية أو آيتين أراد أن يترك تلك السورة ويفتتح التي أرادها يكره اهـ. وفي الفتح: ولو كان أي المقروء حرفاً واحداً (قوله: ولا يكره في النفل شيء من ذلك) عزاه في الفتح إلى الخلاصة، ثم قال: وعندي في هذه الكلية نظر؛ «فإنه صلى الله عليه وسلم  نهى بلالاً - رضي الله عنه- عن الانتقال من سورة إلى سورة، وقال له: إذا ابتدأت سورة فأتمها على نحوها، حين سمعه يتنقل من سورة إلى سورة في التهجد» . اهـ. واعترض ح أيضاً بأنهم نصوا بأن القراءة على الترتيب من واجبات القراءة؛ فلو عكسه خارج الصلاة يكره، فكيف لا يكره في النفل؟ تأمل! وأجاب ط بأن النفل؛ لاتساع بابه نزلت كل ركعة منه فعلاً مستقلاً، فيكون كما لو قرأ إنسان سورةً، ثم سكت، ثم قرأ ما فوقها، فلا كراهة فيه".

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة،  فصل في القراءة،1/ 546، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں