بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں بچے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟


سوال

تراویح میں بچے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟

جواب

جس طرح فرض نمازوں میں بالغ مقتدیوں کی امامت کے لیے امام کا بالغ ہونا ضروری ہے، ایسے ہی تراویح میں امامت کے لیے بھی امام کا بالغ ہونا ضروری ہے۔

اور بالغ ہو نے کا مدار بلوغت کی علامات پر ہے، اگر علامات (احتلام،انزال وغیرہ)  ظاہر ہوجائیں (اور اس کی کم سے کم عمر بارہ سال ہے) تو  وہ امامت کرسکتاہے، علامات ظاہر نہ ہوں تو  قمری اعتبار سے پندرہ سال کا لڑکا بالغ شمار ہوگا، اور اس کی امامت درست ہوگی،  اور علامات ظاہر نہ ہونے کی صورت میں  پندرہ سال سے کم عمر کا لڑکا نابالغ شمار ہوگا، اور اس کی امامت  بالغ مقتدیوں کے لیے درست نہیں ہوگی۔

ہاں نابالغ بچہ تراویح پڑھائے اور اس کے پیچھے نابالغ بچے ہی تراویح ادا کریں تو درست ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1/ 407):

 أن الصحيح أن إمامة الصبي كما لا تجوز في الفرض لا تجوز في النفل.

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں