کیا تراویح کی مروجہ تقریبات کو ’’بدعت‘‘ کہا جائے گا؟
اس سوال کی ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ راقم الحروف نے دیکھا کہ: ایک صاحب اپنے بچوں کی تراویح کے ختم پر کیک کی تقسیم کے وقت مسجد میں چھینا چھپٹی سے ہونے والی بدنظمی کے بعد اپنے شیخ سے مشورہ کے بعد اس رسم کو ترک کردیتے ہیں، جس پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جیسے انہوں نے کسی شرعی کام کو ترک کیا ہو۔
ایک فیملی جو اپنے باقی خاندان کی نسبت کمزور مالی حیثیت رکھتی ہے، اپنے بیٹے کے ختم پر مٹھائی تقسیم کرنے کے لیے حساب کتاب میں مصروف ہے کہ کس چیز کو بانٹنے میں خرچ کم ہوگا؛ کیوں کہ ہاتھ بہت تنگ ہے مگر بانٹنا بھی ضروری ہے، ’’عزت‘‘ کا سوال ہے۔
ایک سفید پوش گھرانے کی خاتون کسی سے درخواست کررہی ہیں کہ کہیں سے کچھ رقم کا انتظام کروادیں، بیٹا پہلی بار تراویح پڑھائے گا، ختم میں بانٹنے کے لئے کچھ نہیں، ’’عزت کا سوال ہے‘‘۔
جس خاندان میں حفاظ زیادہ ہیں، ایک دوسرے سے پوچھ کر ختم کا دن مقرر کرتے ہیں تاکہ کوئی دعا میں شرکت کی سعادت سے محروم نہ رہ جائے (حاضرین کی تعداد کم نہ ہوجائے)، ان کی خواتین رمضان سے پہلے ہی ذہن میں رکھتی ہیں کہ تین چار ختم تو ایسے اٹینڈ کرنے ہیں جن میں کھانے وغیرہ کا اہتمام بھی ہوگا، چنانچہ اپنے اور گھر کے دیگر افراد کے کپڑوں کا انتظام کرکے رکھا جائے۔
صاحبِ حیثیت خاندان کی ایک خاتون اپنے اکلوتے بیٹے کی تراویح کا ختم رواج کے مطابق نہیں کرنا چاہتی ہیں (پورے خاندان کو دعا میں شرکت کی دعوت دیکر رسمی تقریب منعقد نہیں کرنا چاہتیں)، خاتون کو شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ان تمام لوگوں کو ’’دعا میں شریک ہونے کے اجر سے‘‘ محروم کررہی ہیں، جن میں سے 99 فیصد لوگ رشتہ داری اور تعلق کو نبھانے کے لئے آئیں گے، (8 سے 10 کلومیٹر کا سفر، تقریب کے مطابق تیاری کا اہتمام، 15 منٹ کی دعا میں شرکت کے لئے بہرحال نہیں ہوتا)۔ ایک صاحب جو حصولِ روزگار کے لئے سویرے گھر سے نکلتے ہیں اور عمومًا عینِ افطار کے وقت گھر میں داخل ہوتے ہیں، تراویح کے بعد حسبِ توفیق دو یا تین ختم کی تقریبات میں شرکت کرکے جب سوتے ہیں تو سحری کرنی بھی مشکل ہوجاتی ہے، ’’تہجد‘‘ کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، فجر کی نماز بھی بمشکل جماعت سے ادا کرتے ہیں، نیند اور تھکن ’’اشراق تک‘‘ جاگنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن ختم میں شریک ہونا ضروری ہے کیونکہ ’’چاچا جان‘‘ نے خود فون کیا تھا، ’’پھوپھی جان‘‘ تو بہت برا مانیں گی وغیرہ، وغیرہ، لہذا ’’دعا میں شریک ہونا ضروری ہے‘‘، اب ہم جیسے ’’دنیا دار لوگ‘‘ جن کے لئے پورے سال کا یہی ایک مہینہ ہے، کیا آخری عشرے کی برکتوں کو صرف دعاؤں میں شریک ہوکر حاصل کرسکتے ہیں؟ کیونکہ ’’ذاتی عبادت‘‘ کے لئے نہ تو وقت بچتا ہے اور نہ توانائی، ہمارے اندر وہ دینداری تو ہے نہیں جو عبادات میں انتھک محنت کا محرک بن سکے۔
تراویح کے ختمِ قرآن کے موقع پر بیان اور اسی طرح اجتماعی یا انفرادی دعا کرنا مستحسن عمل ہے، (بشرط یہ کہ اس میں دیگر منکرات یا خرافات نہ پائے جائیں) اور یہ بھی دعاؤں کی قبولیت کے اوقات میں سے ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ختمِ قرآن کے مواقع پر دعاکرنا ثابت ہے۔
البتہ تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا یا کھانے کا انتظام کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم کے موقع پر لوگ دعوت اور تقریبات صرف اس لیے کریں تاکہ خاندان میں عزت خراب نہ ہو اور استطاعت نہ ہونے کے باوجود محض نام پیدا کرنے کے لیے لوگوں سے قرض لے کر مٹھائی یا کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا قطعاً درست عمل نہیں، اس عمل کا ترک کردینا ضروری ہے
قرآن ِکریم میں ہے:
"{وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ} "
"ترجمہ:اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔"
[غافر: 60]
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الدعاء عند ختم القرآن في شهر رمضان مكروه لكن هذا شيء لا يفتى به، كذا في خزانة الفتاوى. يكره الدعاء عند ختم القرآن بجماعة لأن هذا لم ينقل عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم."
(كتاب الكراهیة، الباب الثالث، ج:5، ص:318)
وفیہ ایضًا:
"ولا بأس باجتماعهم على قراءة الإخلاص جهرا عند ختم القرآن، ولو قرأ واحد واستمع الباقون فهو أولى، كذا في القنية. ويستحب له أن يجمع أهله وولده عند الختم ويدعو لهم، كذا في الينابيع."
(کتاب الکراھیۃ، الباب الثالث، ج:5، ص:317)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101706
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن