بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے ہرسجدے پر ڈیڑھ ہزار نیکیوں سے متعلق روایت کی تحقیق


سوال

درج ذیل فضائل کی تحقیق مطلوب ہے۔آیا یہ درست  ہیں  یا نہیں؟

میرے نبی نے فرمایا:تراویح کے ہر سجدے پر ڈیڑھ ہزار نیکیاں  لکھی جاتی ہیں، اور ہر سجدے پر جنت میں سرخ یاقوت کا ایک محل تیار کیا جاتا ہے، جس کے ساٹھ ہزار سونے چاندی کے دروازے ہوتے ہیں ،اور تراویح کے ہر سجدے پر جنت میں ایک درخت لگایا جاتا ہے جس کے نیچے سو سال کا عربی گھوڑا دوڑ سکتا ہے۔ 

جواب

سوال میں تراویح کے ہرسجدے کے فضائل سے متعلق   جس روایت کا  مفہوم  ذکر کرکے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا ہے ۔مذکورہ  فضائل "شعب الإيمان للبيهقي"، "الترغيب والترهيب للمنذري"، "كنز العمال في سنن الأقول والأفعال لعلي المتقي الهندي"ودیگر کتبِ   حدیث میں   رمضان المبارک کے فضائل سے متعلق  ایک طویل  روایت میں  مذکور ہیں۔البتہ یہ واضح رہے کہ روایت میں  یہ فضائل صرف تراویح کے ہرسجدے سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ رمضان  المبارک  میں کیے جانے  والے  ہر سجدے سے متعلق مذکور ہیں۔"شعب الإيمان للبيهقي"میں یہ روایت درج ذیل الفاظ میں مذکورہے:

"أخبرنا أبو عبدِ الله الحافظُ، وأبو سهلٍ أحمد بنُ محمّد بنِ إبراهيم المِهْرَانيُّ، وأبو زكريا بنُ أبي إسحاق المُزكِّيُّ، قالُوا: أخبرنا أبو محمّدٍ عبدُ الله بنُ إسحاق بنِ إبراهيم البَغَويُّ، بِبغدادَ، حدّثنا الحسن بنُ عليلٍ العَنْزِيُّ، حدّثنا هشام بنُ يونسَ اللُؤْلُؤِيُّ، حدّثنا محمّد بنُ مروان السُّدِّيُّ عن داودَ بنِ أبي هندَ عن أبي نَضْرةَ العَبْدِيِّ، وعن عطاء بنِ أبي رباحٍ عن أبي سعيدٍ الخُدريِّ -رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم-: إذا كان أوّلُ ليلةٍ مِنْ رمضانَ فُتحتْ أبوابُ السَّماء، فلا يُغلقُ مِنها بابٌ حتّى يكون آخرُ ليلةٍ مِنْ رمضانَ، وليس مِنْ عبدٍ مؤمنٍ يُصلّي في ليلةٍ إلاّ كتب اللهُ له ألفاً وخمسمائةِ حَسنةٍ بكلِّ سجدةٍ، وبَنى له بيتاً في الجنّة مِن ياقوتةٍ حمراءَ، لها سِتُّونَ ألفَ بابٍ، لِكلِّ بابٍ مِنها قَصْرٌ مِنْ ذَهبٍ مُوشَّحٌ بِياقوتةٍ حمراءَ، فإذا صامَ أوّلَ يومٍ مِنْ رمضانَ غُفِر له مَا تَقدَّم مِنْ ذنبِه إلى مثلِ ذلكَ اليومِ مِن شهرِ رمضانَ، واستغفرَ له كلَّ يومٍ سَبْعُونَ ألفَ ملَكٍ مِن صلاةِ الغَداةِ إلى أن تُوارىَ بِالحِجاب، وكان له بِكلِّ سجدةٍ يَسجدُها في شهرِ رمضانَ بِليلٍ أو نهارٍ شجرةٌ يَسيرُ الرَّاكبُ في ظِلِّها خَمسَ مِئةَ عامٍ " .

ترجمہ:

’’(حضرت) ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،  پھر رمضان المبارک کی آخری رات تک اُن میں سے کوئی بھی  دروازہ بند نہیں کیاجاتا۔اور  کوئی بھی  مومن بندہ ( اس مبارک مہینے کی) کسی  بھی  رات میں نمازپڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ہرسجدے کے عوض  میں پندرہ سو نیکیاں لکھ دیتے ہیں،  اور اس کے لیے  جنت میں سُرخ یاقوت کا ایک ایسا  مکان  تعمیر کردیتے ہیں ،جس کے ساٹھ ہزار دروازے ہوتے ہیں،ہردروازے پر سونے کا ایک محل ہوتا ہے جوسُرخ یاقوت سے مزین ہوتا ہے ۔پھر جب وہ( مومن بندہ) یکم  رمضان کو روزہ رکھتا ہے تو اس کےگزشتہ رمضان المبارک کے اس دن سے آج تک کے  تمام(صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتےہیں اور روزانہ فجر کی نماز سے  سورج غروب ہونے تک  ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں،  اور رمضان المبارک  میں دن یا رات کے ہرسجدے کے عوض اسے(جنت میں)ایک ایسا   درخت ملےگا جس کےسائے میں سوار پانچ سوسال تک چلتارہے‘‘۔

(شعب الإيمان، الصيام، فضائل شهر رمضان، 5/241، رقم : 3362، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع -الرياض)

 مذکو  رہ روایت کی سند میں  ایک راوی محمد بن مروان  السدی ہے ، جو اس روایت کے نقل کرنے میں متفرد ہے، ذیل میں   اس کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں:

۱۔امام یحیی بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"ليسَ بِثقةٍ".(محمد بن مروان  ثقہ نہیں ہے)۔

۲۔امام جریر بن عبد الحمید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"محمّد بنُ مروان كذّابٌ".(محمد بن مروان کذاب ہے)۔

۳۔امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"هُو ذاهبُ الحديث، متروكُ الحديث، لا يُكتب حديثُه البتَّة".(محمد بن مروان  "ذاهبُ الحديث، متروكُ الحديث"(شدید   کلمۂ جرح) ہے، اس کی حدیثیں قطعاً نہیں لکھی جائیں گی)۔

(الجرح والتعديل لعبد الرحمن الرازي، باب تسمية من روى عنه العلم ممن يسمى محمدا ... إلخ، 8/86، رقم: 364، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)

۴۔ حافظ ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"كان مِمّن يروي الْموضوعات عن الأثبات، لا تحلُّ كتابةُ حَديثِه إلّا على سبيلِ الاعتبار، ولَا الاحتجاجُ بِه بِحالٍ مِن الأحوالِ".(محمد بن مروان ان لوگوں میں سے ہے جو ثقہ اور معتبر لوگوں سے حدیثیں  گھڑتا تھے،اس کی حدیثیں ’’اعتبار‘‘(كسي  حدیث کو ایک روای نے روایت کیا ہو  تو اس حدیث کے دیگر  طرق تلاش کیے جاتے ہیں ،تاکہ یہ معلوم  ہو کہ اس حدیث کے روایت کرنے میں کوئی اور بھی اس راوی کے ساتھ شریک ہے یانہیں ، طرق کے تلاش کے اس عمل کو محدثین کی  اصطلاح میں ’’اعتبار‘‘ کہا جاتا ہے) ہی کے لیے لکھنا جائز ہے،اور کسی بھی صورت میں  اس کی حدیثوں سے استدلال کرنا جائز نہیں ہے)۔

(المجروحين لابن حبان، باب الميم، 15/298، رقم:979، ط: دار الصميعي للنشر والتوزيع- الرياض)

۵۔امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"سَكتُوْا عنْه".(محدثین   نے اس کے بارے میں سکوت کیا ہے۔(یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی خاص  اصطلاح ہے، جسے وہ اکثر شدید جرح کے لیے استعمال کرتے ہیں)۔

۶۔صالح بن محمد بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" كان ضعيفاً، وكان يضعُ".(محمد بن مروان   ضعیف تھا، نیز یہ حدیثیں گھڑتا تھا)۔

۷۔ابنِ نمیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:" ليسَ بِشيءٍ".(محمد بن مروان  "ليسَ بِشيءٍ"( الفاظِ جرح )ہے)۔

۸۔ یقوب بن سفیان فارسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"ضعيفٌ، غيرُ ثِقةٍ".(محمد بن مروان  ضعیف ہے، غیرِثقہ ہے)۔

۹۔حافظ ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"الضُّعفُ علَى رِواياتِه بيِّنٌ".(محمد بن مروان  کی روایات میں ضعف بالکل واضح ہے)۔

(تهذيب التهذيب لابن حجر، باب الميم، محمد مع الميم في الآباء، 9/387، رقم: 721، ط: دار الفكر-بيروت)

۱۰۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:"تَركُوه واتُّهِم". (محدثین نے  اسے ترک کیا ہے، اور یہ متہم ہے)۔

(المغني في الضعفاء، حرف الميم، 2/631، رقم:5966)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"مُتّهمٌ بِالكذْبِ".(محمد بن مروان  متہم بالکذب ہے)۔

(تقريب التهذيب، حرف الميم، ذكر من اسمه ص:506، رقم:6284، ط:دار الرشيد- سؤريا)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102668

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں