تراویح پڑھانے کے بعد جو اجرت لی گئی کیا اس کو واپس کرنا واجب ہے؟
واضح رہےکہ تراویح کی نماز میں قرآنِ کریم سنا کر اُجرت لینا جائز نہیں ہے،صورت ِ مسئولہ میں اگر تراویح سنانے کی اُجرت باقاعدہ طے کرکے لی گئی ہےتو لی گئی اُجرت دینے والے کو واپس کرنا ضروری ہےلیکن اگر تراویح کی باقاعدہ اُجرت طے نہ ہوئی ہو بلکہ انتظامیہ یا مقتدیوں نے ازخود بطورِ تحفہ کوئی رقم دی ہو تواسے واپس کرنا ضروری نہیں ،استعمال کرسکتے ہیں ۔
فتاوٰی شامی میں ہے:
'' فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!! اهـ".
(كتاب الإجارة ،مطلب في الاستئجار على المعاصي ، ج:6،ص:56،ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ."
(کتاب الحظر والاباحۃ،باب البیع،ج6،ص385،ط:سعید)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق".
(کتاب البیوع،ج12،ص172،ط:دارالمعرفۃ)
منحۃ الخالق لابن العابدين میں ہے:
"ويجب عليه تفريغ ذمته برده إلى أربابه إن علموا وإلا إلى الفقراء".
( كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ج2،ص 211، ط: دار الكتاب الإسلامي )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310100750
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن