بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے بجائے امام کو امامت کی تنخواہ پر بونس دینے کا حکم


سوال

کیا نمازِ تراویح کے اجرت کے بدلے امام کو یہ کہنا کہ آپ کو تراویح کی کوئی اجرت نہیں ملے گی بس سال میں آپ کو ایک بار بونس ملے گا یعنی کہ ۱۳ مہینہ کی تنخواہ، نمازِ تراویح کی اجرت نہ دیکر بونس کی شکل میں پیسے دینے سے نمازِ تراویح اس امام کے پیچھے پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں امام کو تراویح کی الگ سے اجرت نہ دینا اور امامت کی تنخواہ میں بونس کی صورت میں اضافہ کرنا شرعا جائز ہے اور ایسے امام کے پیچھے نماز بھی درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فظهر لك بهذا عدم صحة ما في الجوهرة من قوله واختلفوا في الاستئجار على قراءة القرآن مدة معلومة.

قال بعضهم: لا يجوز: وقال بعضهم: يجوز وهو المختار اهـ والصواب أن يقال على تعليم القرآن، فإن الخلاف فيه كما علمت لا في القراءة المجردة فإنه لا ضرورة فيها، فإن كان ما في الجوهرة سبق قلم فلا كلام، وإن كان عن عمد فهو مخالف لكلامهم قاطبة فلا يقبل.

وقد أطنب في رده صاحب تبيين المحارم مستندا إلى النقول الصريحة، فمن جملة كلامه قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان."

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۵۶، ایچ ایم سعید)

امداد الاحکام میں ہے:

"جو حافظ اجرت پر ختم قرآن شریف کے لیے رکھا گیا ہے، اگر وہ اس تنخواہ میں مہینہ بھر پانچوں نمازوں کی امامت بھی کریگا تو اس کو واضح کرکے سوال کیا جائے ، اور اگر ایسا نہیں تو اس کے پیچھے قرآن سننے سے ثواب نہ ملے گا اور ایسا امام جو کہ فاسق بھی ہے اس لئے اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے پس عمرو اس حالت میں نماز الگ پڑھ لے، اس حافظ کے پیچھے نماز نہ پڑھے۔"

(کتاب الاجارۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۷۶،مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101464

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں