بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترایح کی رکعات کی تعداد


سوال

 تراویح کی کتنی رکعت ہیں  بیس یا آٹھ؟  دلائل سے جواب دیں!

جواب

بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، تراویح آٹھ رکعت نہیں ہے،  بیس رکعت تراویح پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بیس رکعت{تراویح}اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ {مصنف ابن ابی شیبہ:۵/ ۲۲۵،حدیث نمبر:۷۷۷۴،ط:ادارۃ القرآن کراچی}

نیز اگر امت کسی حدیث کو قبول کرلے اور اس پر سب عمل کریں  تو وہ متواتر کے معنی میں ہوجاتی ہے، اور امت کا کسی حدیث کو قبول کرنا اس کی صحت اور حجت ہونے کی قوی ترین دلیل ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے، اور سند کے اعتبار سے اگرچہ اس پر کلام موجود ہو، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور اب تک اسی پر عمل کرتے ہوئے بیس رکعت تراویح ادا کرتے آرہے ہیں، اور اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ایک امام کے پیچھے سب کو جمع کرکے بیس رکعات تراویح کا اہتمام کروایا تو کسی نے تعداد رکعات میں اختلاف نہیں کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے معاملے میں بہت حساس تھے، اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس سنت سے کوئی اصل نہ ہوتی تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے، اور ضرور کوئی صحابی اس پر نکیر کرتے، بہرحال صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع رہا ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرام کی مخالفت اور گم راہی ہے، نیز بیس رکعات سے کم رکعات ادا کرنا سنت کے خلاف ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی صلاۃ التہجد اور قیام اللیل کے لیے الگ الگ ابواب قائم کیے ہیں، اور تہجد کے باب کے تحت آٹھ رکعات اور تین وتر والی روایت ذکر کی ہے، جب کہ قیام اللیل کے باب کے تحت آٹھ رکعات والی روایت ذکر نہیں کی ہے، معلوم ہوا کہ قرونِ اولیٰ سے ہی آٹھ رکعات کو تہجد اور قیام اللیل کو اس سے جدا مستقل سنت سمجھا جاتا رہاہے، لہٰذا آٹھ رکعات تہجد سے متعلق صحیح حدیث کا مصداق تراویح کو قرار دینا درست نہیں ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘. (كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیدمي ) (المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣) و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

 "مرقاۃ المفاتیح" میں ہے: 
" لكن أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعةً". (3/382، ط: رشیدیة)

"عمدۃ القاری شرح صحیح للبخاری" میں ہے:
"روى عبد الرزاق في (المصنف) عن داود بن قيس وغيره عن محمد بن يوسف (عن السائب بن يزيد: أن عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه، جمع الناس في رمضان على أبي بن كعب، وعلى تميم الداري على إحدى وعشرين ركعةً يقومون بالمئين وينصرفون في بزوغ الفجر، قلت: قال ابن عبد البر: هو محمول على أن الواحدة للوتر. وقال ابن عبد البر: وروى الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب عن السائب بن يزيد، قال: كان القيام على عهد عمر بثلاث وعشرين ركعةً. قال ابن عبد البر: هذا محمول على أن الثلاث للوتر. وقال شيخنا: وما حمله عليه في الحديثين صحيح، بدليل ما روى محمد بن نصر من رواية يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد أنهم كانوا يقومون في رمضان بعشرين ركعةً في زمان عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه. وأما أثر علي رضي الله تعالى عنه، فذكره وكيع عن حسن بن صالح عن عمرو بن قيس عن أبي الحسناء عن علي رضي الله تعالى عنه، أنه أمر رجلاً يصلي بهم رمضان عشرين ركعةً. وأما غيرهما من الصحابة فروي ذلك عن عبد الله بن مسعود، رواه محمد بن نصر المروزي قال: أخبرنا يحيى بن يحيى أخبرنا حفص بن غياث عن الأعمش عن زيد بن وهب، قال: (كان عبد الله بن مسعود يصلي لنا في شهر رمضان) فينصرف وعليه ليل، قال الأعمش: كان يصلي عشرين ركعةً ويوتر بثلاث). وأما القائلون به من التابعين: فشتير بن شكل، وابن أبي مليكة والحارث الهمداني وعطاء بن أبي رباح، وأبو البحتري وسعيد بن أبي الحسن البصري أخو الحسن وعبد الرحمن ابن أبي بكر وعمران العبدي. وقال ابن عبد البر: وهو قول جمهور العلماء، وبه قال الكوفيون والشافعي وأكثر الفقهاء، وهو الصحيح عن أبي بن كعب من غير خلاف من الصحابة". (8/246، باب فضل من قام رمضان، ط: دارالفکر بیروت) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201610

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں