بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی نماز سُنّتِ مؤکدہ ہے


سوال

تراویح سنت ہے یا نفل؟

جواب

از روئے شرع مرد و زن کے لیے تراویح  کی نماز بالاجماع سنتِ مؤکدہ ہے،بلا عذر (بیماری، سفر شرعی وغیرہ) اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔ خلفاءِ  راشدین،صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور سلفِ صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے،  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا باجماعت بیس رکعات تراویح پڑھنے کا اہتمام کرنا اور اس پر اتفاق کرنا اور امت کا چودہ سو سال پابندی سے اس پر عمل کرنا ہی اس کے سنتِ  مؤکدہ ہونے کی دلیل ہے۔

نیز مردوں کے لیے تراویح کی نماز باجماعت ادا کرنا سُنّتِ کفایہ ہے یعنی اگر محلہ کے چند افراد اِس سُنّت کو جماعت کے ساتھ ادا کرلیں تو  سب کا ذمہ فارغ، ورنہ سب گناہ گار ہوں گے، جو مرد انفرادی تراویح پڑھے گا تو اس کی تراویح کی سنت تو ادا ہوجائے گی، لیکن جماعت کے ثواب سے  محروم ہے گا، اور عورتوں کے لیے جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کرنا سُنّتِ مؤکدہ کفایہ نہیں، بلکہ عورتوں کا گھر میں تنہاء تراویح ادا کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(التراويح سنة) مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعاً".

(‌‌كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاة التراويح، ج:2، ص:43، ط:سعید)

وفیہ أیضاً:

"(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم.

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا. اهـ".

(‌‌كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مبحث صلاة التراويح، ج:2، ص:45، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں