بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی جگہ پر ہی عشاء کی جماعت کر لینا


سوال

ایک حافظ صاحب کسی مکان کی چھت پر تراویح پڑھا رہے ہیں  تو آیا ان کے لیے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھنا ضروری ہے ؟ یا اس جگہ بھی جماعت کرواسکتے ہیں؟ اور وہاں جماعت کرانے میں شرعًا کوئی حرج وغیرہ تو نہیں ہے؟ 

جواب

مسجد قریب ہوتے ہوئے  کسی عذر  کے بغیر فرض نماز  کی جماعت کا دوسری جگہ اہتمام کرنا مکروہ ہے، اور مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے سے مسجد کی فضیلت اور ثواب سے محرومی ہوگی، نیز مسجد میں آنے کے بجائے بغیر کسی شرعی عذر کے مردوں کے گھروں میں نماز ادا کرنے پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں ، چنانچہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلاً فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال. وفي رواية: لايشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقًا سمينًا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء". رواه البخاري ولمسلم نحوه".

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ (کسی خادم کو) لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں اور جب لکڑیاں جمع ہو جائیں تو (عشاء) کی نماز کے لیے اذان کہنے کا حکم دوں اور جب اذان ہو جائے تو لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کسی آدمی کو مامور کروں اور پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں (جو بغیر کسی عذر کے نماز کے لیے جماعت میں نہیں آتے) اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں: (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:) ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا دوں اور قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے (جو لوگ نماز کے لیے جماعت میں شریک نہیں ہوتے ان میں سے) اگر کسی کو یہ معلوم ہوجائے کہ (مسجد میں) گوشت کی فربہ ہڈی، بلکہ گائے یا بکری کے دو اچھے کھر مل جائیں گے تو عشاء کی نماز میں حاضر ہوں۔

مشکاۃ شریف کی دوسری روایت میں ہے :

"وَعنِ ِابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: مَنْ سَمِعَ الْمُنَادِیَ فَلَمْ یَمْنَعْه مِن اتِّبَاعِه عُذْرٌ، قَالُوْا: وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: خَوْفٌ أَوْ مَرَضَ لَمْ تُقْبَلْ مِنْه الصَّلاة الَّتِي صَلَّی". (رواه أبوداؤد والدارقطني)".

ترجمہ :" حضرت عبداللہ بن عباس راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو آدمی اذان کہنے والے (یعنی مؤذن) کی اذان سنے اور مؤذن کی تابع داری (یعنی مسجد پہنچ کر جماعت میں شریک ہونے) سے اسے کوئی عذر نہ روکے، لوگوں نے پوچھا کہ عذر کیا ہے؟ فرمایا کہ : (دشمن سے) ڈرنا یا بیماری، تو اس کی نماز جو بغیر جماعت (اگرچہ مسجد ہی میں پڑھے) قبول نہیں کی جاتی "۔

یہ روایات اور اس طرح کی دیگر روایات سے معلوم ہوتاہے کہ مردوں کے لیے کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد کو  چھوڑ کر گھر میں نماز اداکرنا درست نہیں ، ایسے  افراد احادیث میں  مذکور  شدید وعید میں شامل ہیں؛ لہذا فرض نماز مسجد میں  باجماعت ادا کرنے کے بعد تراویح کے لیے مقررہ  چھت پر تراویح کی ادائیگی کی جائے ، اگر اسی جگہ عشاء کی نماز ادا کی تو ادا تو ہوجائے گی، لیکن ایس کرنابہت بڑے ثواب سے محرومی کا باعث ہوگا ۔

  فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144209200299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں