بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی ہر چار رکعات کے بعد خاموش بیٹھنا


سوال

تراویح کی نماز میں ہر چار رکعت کے بعد خاموش بیٹھنا اور کچھ نہ پڑھناکسی حدیث سے ثابت ہے تو واضح لکھ دیں اور کیا ہم ایسا کرنے کو سنت بھی کہہ سکتے ہیں؟

جواب

تراویح کی ہر چار رکعت کو  "ترویحہ"  کہا جاتا ہے، اور ترویحہ کے بعد کچھ  دیر بیٹھنا مستحب ہے، اب  اس دوران کوئی خاص عمل احادیث  میں وارد   نہیں  ہے ،تلاوت قرآن ،تسبیح و تہلیل ،درود شریف اور کوئی بھی ماثور دعا پڑھ سکتے ہیں، اسی طرح اگر خاموش بیٹھنا  چاہیں تو خاموش بھی بیٹھ سکتے ہیں ، لیکن  خاموش بیٹھنے کو ہی سنت کہنا درست نہیں ہے، جیسے خاموش بیٹھنے کو غلط کہنا درست نہیں ہے۔

حوالہ جات درج ذیل ہیں: 

وفي السنن الكبرى للبيهقي: 

"عن زيد بن وهب قال: كان عمر بن الخطاب - رضي الله عنه - يروحنا في رمضان، يعنى بين  الترويحتين قدر ما يذهب الرجل من المسجد إلى سلع، كذا قال. ولعله أراد من يصلى بهم التراويح بأمر عمر بن الخطاب - رضي الله عنه -، والله أعلم...عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلى أربع ركعات في الليل، ثم يتروح، فأطال حتى رحمته فقلت: بأبى أنت وأمى يا رسول الله، قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تأخر. قال: "أفلا أكون عبدا شكورا؟" . تفرد به المغيرة بن زياد، وليس بالقوي.

وقوله: ثم يتروح. إن ثبت فهو أصل في تروح الإمام في صلاة التراويح، والله أعلم."(5/ 332)

وفي الفتاوی الهندية:

"ویستحب الجلوس بین الترویحتین قدر ترویحة، وکذا بین الخامسة والوتر."

(هندیة، فصل في التراویح)

وفي الشامية:

"یجلس ندباً بین کل أربعة بقدرها، وکذا بین الخامسة والوتر."

(شامي، مبحث صلاة التراویح،۲/ ۴۶)

وفي حلبي كبير:

"فیجلس بین کل ترویحتین مقدار ترویحة أي بین کل أربع رکعات، وهو مخیر فیه إن شاء جلس ساکتاً، وإن شاء هلّل، سبّح،وهذا الانتظار مستحب لعادة أهل الحرمین."

(حلبي کبیر، الصلاة، فصل في التراویح، اشرفیہ /۴۰۴)

(تاتارخانیة، الصلاة، الفصل الثالث عشر التراویح ۲/ ۳۱۸، رقم: ۲۵۳۴)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں