بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی دعا کا ثبوت


سوال

 آپ جو تراویح کی دعا کا ثبوت پیش کرتے ہیں ہے اس کی دلیل کیا ہے مہربانی کر کے ارسال فرمائیں۔

جواب

تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد کوئی خاص  تسبیح یا دعا احادیث سے  ثابت نہیں ہے،  تسبیحِ تراویح کے نام سے جو تسبیح ہمارے ہاں معروف ہے وہ بعض فقہاء نے مختلف روایات کے الفاظ کو جمع کرکے عوام الناس کی سہولت کے لیے مرتب کردی ہے؛ لہٰذا اس کو لازم نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ  مطلقاً  کوئی بھی دعا یا تسبیح پڑھی جا سکتی ہے اور  جس طرح ہر چار رکعت کے بعد کوئی دعا پڑھ لینی چاہیے، اسی طرح 20 رکعت کے بعد اور وتر سے پہلے بھی پڑھ لینی چاہیے،لیکن تکلفات اور التزامات کے بغیر تسبیح کے مذکورہ کلمات (جو علامہ شامی رحمہ اللہ نے قہستانی کے حوالے سے ذکر فرمائے ہیں)  پڑھنے میں حرج نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے جب اس دعا کا ذکر کیا ہے تو بغیر التزام اور غلو کے اسے کبھی پڑھ لینا چاہیے، نیز اکابر نے بھی اس کے التزام اور غلو (مثلاً بآوازِ بلند اجتماعی طور پر پڑھنے، یا اسی کو لازم سمجھنے، اس سے کم یا زیادہ نہ پڑھنے) سے منع کیا ہے، نہ کہ مطلقاً اسے پڑھنے سے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(يجلس) ندبا (بين كل أربعة بقدرها وكذا بين الخامسة والوتر) ويخيرون بين تسبيح وقراءة وسكوت وصلاة فرادى، نعم تكره صلاة ركعتين بعد كل ركعتين

(قوله بين تسبيح) قال القهستاني: فيقال ثلاث مرات «‌سبحان ‌ذي الملك والملكوت، ‌سبحان ‌ذي العزة والعظمة والقدرة والكبرياء والجبروت، سبحان الملك الحي الذي لا يموت، سبوح قدوس رب الملائكة والروح، لا إله إلا الله نستغفر الله، نسألك الجنة ونعوذ بك من النار» كما في منهج العباد. اهـ."

(كتاب صلوة،باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:46،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں