بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے بعد تفسیر بیان کرنے کا حکم


سوال

تروایح تفسیر کے ساتھ پڑھنا کیسا ہے؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں تراویح کی نماز کے بعد تلاوت شدہ حصے یا مطلق قرآن کی تقسیر کے ساتھ پڑھنا جائز ہے، البتہ ہر ترویحہ کے بعد تفسیر کی عادت ڈالنا صحیح نہیں کیوں کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ثابت نہیں۔

واضح رہے کہ  علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے، اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے،چناں چہ قرآن مجید کی تفسیر کرنا جس قدر اہم دینی خدمت ہے اسی قدر نازک معاملہ بھی ہے  ، اس لیے کہ قرآن کریم کے مطالب و مفاہیم  محض اپنی عقل اور فہم سے  بیان نہیں کیے جاسکتے ، بلکہ رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے جو کچھ منقول ہے وہی مستند و معتبر ہے۔

لہذاقرآنِ کریم کا ترجمہ اور تفسیر سمجھنے اور اس کو دوسروں کو پڑھانے اور سمجھانے  کے لیے علم تفسیر  پر دسترس ہونے  کے ساتھ ساتھ   دیگر وہ علوم جو اس کے لیے معاون ہیں بقدرِ ضرورت ان کا سیکھنا بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں جہاں قرآنِ کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھائی جاتی ہے وہیں صرف ، نحو، بلاغت اور اصولِ تفسیر وغیرہ     جیسےعلوم بھی پڑھائے جاتے ہیں ، تاکہ قرآن کریم کے سمجھنے میں آسانی ہو۔چنانچہ مفسرقرآن کے منصب پر فائز ہونے کے لئے  فقط  عربی دان ہونا ہی کافی نہیں بلکہ منجملہ شرائط میں سے علوم عالیہ و فنونِ آلیہ میں مہارتِ تامہ کا ہونا  بھی   ضروری ہے۔

علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں کہ:

’’جمہور علمأ امت کی رائے کے مطابق قرآنی اعجاز کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لئے مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حاملین کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا جائز ہے اور یہ استعداد وصلاحیت علوم وفنون کی تقریباً ۱۵اقسام حاصل کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہےاور وہ پندرہ علوم یہ ہیں:

۱:علم لغت، ۲:علم صرف، ۳:علم نحو، ۴:علم اشتقاق، ۵:علم معانی، ۶:علم بیان، ۷:علم بدیع، ۸:علم قراء ات، ۹:علم اصول الدین، ۱۰:علم اصول فقہ، ۱۱:علم اسباب النزول، ۱۲:علم ناسخ ومنسوخ، ۱۳:علم فقہ، ۱۴:علم حدیث، ۱۵:نورِ بصیرت اور وہبی علم۔‘‘

لہذا جس شخص  میں اہل تفسیرہونے کی مندرجہ بالا  شرائط موجود نہ ہوں اور وہ شخص اوصافِ لازمہ سے  بھی  متصف نہ ہو،اور  فقط عربی سے کسی قدر  واقفیت کی بنیاد پر  قرآن مجید کی تفسیر بیان کرنے کا منصب سنبھالنے لگے تو سخت اندیشہ ہے کہ وہ حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے فیض یافتہ تابعین تبع تابعین سلف صالحین رحمہم اللہ کی تفسیر اور آثار و اقوال کو بالائے طاق رکھ کر اپنی سمجھ اپنے مطالعہ اور اپنی فہم کو بنیاد بناکر تفسیر بالرائے  کی راہ اختیارکرے گا اور  اسی بابت حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہوئی ہے ،چناں چہسنن ترمذی  میں ہے:

"عن ‌ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌قال ‌في ‌القرآن ‌بغير ‌علم ‌فليتبوأ ‌مقعده ‌من ‌النار. هذا حديث حسن"

(‌‌أبواب تفسير القرآن،باب ماجاء فی الذی یفسر القرآن برایه،65/5،ط:دار الغرب الإسلامي)

ترجمہ:’’عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس  (شخص)نے بغیر علم کے قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“

 چناں چہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین   اہل عرب تھے اور علوم وفنون ان میں سے  بہت سے حضرات مہارت بھی رکھتے  تھے مگرقرآن کریم کی تفسیر و مطالب میں حضرت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیم وتبیین کے محتاج تھے۔

 قرآن کریم میں  ہے:

"لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ" (سورة آل عمران:164)

ترجمہ :’’ حقیقت میں اللہ تعالی نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگون کو اللہ تعالی کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان لوگوں کی صفائی کرتے رہتے ہیں کتاب اور فہم کی باتیں بتلاتے رہتے ہیں اور بالیقین یہ لوگ قبل سے صریح غلطی میں تھے ۔‘‘(بیان القرآن)

الغرض ان جیسی آیاتِ مبارکہ اور احادیث شریف کے پیش نظر عام لوگوں کو   قرآن کریم کی تفسیر بیان  کرنے   کی ہرگز اجازت نہیں ہے، البتہ عالم  یعنی درس نظامی کا فاضل قرآن کریم کی تفسیر بیان  کرسکتا ہے ،کیو ں کہ درس نظامی میں درج بالا پندرہ کے پندرہ علوم پڑھاۓ جاتے ہیں، اور درس نظامی کے ہر ایک فاضل کو ان تمام علوم پر کامل مہارت اگرچہ نہ ہو مگر ان تمام علوم کے ساتھ مناسبت ضرور ہوتی ہے؛  لہذا علماء تفسیر  بیان کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔  

چناں چہ  درس  و تقریر وعظ اورنصیحت  وغیرہ مستحب  ہے، لہذا ان کے لیے کوئی بھی صورت اختیار کرلی جائے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، حد یث  میں ہے کہ :" رسول اللہﷺ نے ہمیں  صبح کی نماز  پڑھائی اور اس کے بعد ہماری طرف متوجہ ہو کر ایک موثر و عمدہ نصیحت فرمائی۔"نیز پھرنبی کریم ﷺ  کے بعد دور صحابہ سے لے کر اب تک امت محمدیہ   میں وعظ و نصیحت وغیرہ  کے لیے مختلف طریقے اور ذرائع  اختیار کیے جاتے رہے ہیں۔لہذا تراویح کے بعد تفسیر کے بیان کرنے میں شرعًا کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ لازم نہ سمجھا جاۓاور لوگوں کو شرکت پر مجبور نہ کیا جاۓ،لیکن واضح رہے کہ قرآن کریم کی  تفسیر تراویح کی  بیس رکعت مکمل ہونے کے بعد  بیان کریں، ہر چار رکعت کہ بعد  تفسیر بیان کرنے کا التزام اور کھانے وغیرہ  سے  اجتناب کریں!

تراویح کے مسائل کے انسائکلوپیڈیا میں ہے:

’’تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد تسبیح ،تہلیل اور  درود شریف  وغیرہ پڑھنا مستحب ہے۔وعظ کہنا مستحب نہیں۔اس لیے اگر کبھی ضروری وعظ ہو جاۓ تو کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن ہر ترویحہ کے بعد وعظ کا التزام  کرنا درست نہیں ہے۔جیسا کہ در مختار میں ہے چپ بیٹھا رہے یا کلمہ پڑھے،یا تلاوت کرے یا درود شریف پڑھے،یا نفل نماز تنہا پڑھے لیکن وعظ کا ذکر کہیں بھی نہیں۔‘‘

(وعظ کرنا،صفحہ نمبر 397،ط:بیت العمار کراچی)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن العرباض بن سارية، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الصبح ‌ثم ‌أقبل ‌علينا ‌بوجهه ‌فوعظنا موعظة بليغة فذكر نحوه."

(باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين،ج:1،ص:17،ط:دار إحياء الكتب العربية)

بخاری شریف میں ہے:

"عن سمرة بن جندب قال:‌كان ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌إذا ‌صلى ‌صلاة، ‌أقبل ‌علينا ‌بوجهه."

(كتاب صفة الصلاة،باب يستقبل الإمام الناس إذا سلم،290/1،ط:دار ابن كثير، دار اليمامة)

الاتقان فی علوم القرآن میں  ہے :

"ومنهم من قال: يجوز تفسيره لمن كان جامعا للعلوم التي يحتاج المفسر إليها وهي خمسة عشر علما: أحدها: اللغة،.. والثاني: النحو،.. والثالث: التصريف،.. والرابع: الاشتقاق،.. والخامس والسادس والسابع: المعاني والبيان والبديع،.. والثامن: علم القراءات،.. والتاسع: أصول الدين،.. والعاشر: أصول الفقه،.. والحادي عشر: أسباب النزول والقصص،.. والثاني عشر: الناسخ والمنسوخ،.. والثالث عشر: الفقه،.. والرابع عشر: الأحاديث المبينة لتفسير المجمل والمبهم،.. والخامس عشر: علم الموهبة..."

(النوع الثامن و السبعون في معرفة شروط المفسر و آدابه،180/181/2 ط: دارالندوة الجديدة)

مرقاۃ المفاتیح   میں ہے:

"وعلم التفسير يؤخذ من أفواه الرجال كأسباب النزول والناسخ والمنسوخ، ومن أقوال الأئمة وتأويلاتهم بالمقاييس العربية كالحقيقة والمجاز والمجمل والمفصل والعام والخاص، ثم يتكلم على حسب ما يقتضيه أصول الدين، فيئول القسم المحتاج إلى التأويل على وجه يشهد بصحته ظاهر التنزيل، فمن لم يستجمع هذه الشرائط كان قوله مهجورا، وحسبه من الزاجر أنه مخطئ عند الإصابة".

( كتاب العلم،بيان تفسير القرآن بالراي،293/1،ط:مكتبه امداديه،ملتان)

فتاوی شامی میں ہے:

"كل جائز ‌أدى ‌إلى اعتقاده ذلك كره."

(‌‌كتاب الصلاة،371/1،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على ‌استحباب ‌ذكر ‌الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ"

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،مطلب في رفع الصوت بالذكر،660/1،ط:سعید)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(‌يجلس) ‌ندبا (بين كل أربعة بقدرها وكذا بين الخامسة والوتر) ويخيرون بين تسبيح وقراءة وسكوت وصلاة فرادى."

(كتاب الصلوة،باب الوتر والنوافل،46/2،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں