بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے ختم پر مٹھائی تقسیم کرنے کا حکم


سوال

تراویح کے ختم پر مٹھائی تقسیم کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   تراویح میں تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم  پر مٹھائی تقسیم کرنے  کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو اور بچوں کا  رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو ایسی صورت میں  اس کا ترک کردینا ضروری ہے، تاہم اگر     مٹھائی تقسیم کرنے کو ضروری نہ سمجھا جائے،  اور لوگوں سے زبر دستی اس کے لیے چندہ نہ کیا جائے،  بلکہ کوئی   شخص اپنی خوشی سے  مٹھائی تقسیم کردے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے،  تقسیم کے وقت مسجد کی حرمت کا خیال رکھا جائے، شور و غل سے اجتناب کیا جائے،  اور   مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"سوال : 1۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن ہوتا ہے اس دن شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ بینوا تؤجروا۔

2۔ شیرینی صرف ایک شخص کی طرف سے تقسیم ہوتی ہے۔ چندہ نہیں کرتے تو یہ درست ہے یا نہیں؟

3۔شیرینی جماعت خانہ میں تقسیم کرسکتے ہیں یا صحن میں کی جائے؟بینوا تؤجروا۔

الجواب:1۔ضروری نہیں ہے، لوگوں نے اسے ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شور و غل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر اس دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے۔

2۔امامِ تراویح یا اور کوئی ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے تو درست ہے۔

3۔مسجد کا فرش خراب نہ ہو، خشک چیز ہو اور مسجد کی بے حرمتی لازم نہ آئے تو درست ہے، بہتر یہ ہے کہ دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب۔"

(مسائلِ تراویح، ج:6، ص:243-244،دار الاشاعت)

البحر الرائق میں ہے:

"أخرجه المنذري مرفوعا : (جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وبيعكم وشراءكم ورفع أصواتكم وسل سيوفكم وإقامة حدودكم وجمروها في الجمع واجعلوا على أبوابها المطاهر)."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج:2، ص:37، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں