بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے دوران پیچھے بیٹھ کر فیس بک وغیرہ استعمال کرنا


سوال

تراویح میں  تلاوت کے دوران بعض لوگ  پیچھے بیٹھ کر فیس بُک یا سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ،اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قران کریم کی  تلاوت  کا احترام کرنا اورتلاوت ہورہی ہوتو اس کاسُننا ضروری   ہے ،تلاوت کے دوران کسی ایسے کام میں مشغول ہوناجو قران کریم سے اعراض کرنے کے زمرے میں آتاہو جائز نہیں،صورت مسئولہ میں نماز تراویح میں تلاوت کےدوران بھی قران کریم کے ادب کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے،تراویح کے دوران سوشل میڈیا کے استعمال سے" نماز،تلاوت "کی بےحرمتی اور اس کے سننے سے اعراض لازم آتا ہے،اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے،ورنہ گناہ گار ہوں گے، ایسے لوگوں کو پیار محبت سے سمجھا کرتراویح کی جماعت میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے ورنہ یہ لوگ عبادت کے سیزن کو ضائع کرنے کی وجہ سے بہت ہی بڑے خسارے میں ہوں گے اور مکہ کے مشرکین کی جو تحریک تھی کہ قرآن سننے سے لوگوں کو روکا جائے اس کے کارکن بن جائیں گے اور یہ بہت ہی بڑی تباہی ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُۥ وَأَنصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ [الأعراف:204] 

احکام القران للجصاص میں ہے:

"{وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} يقتضي وجوب الاستماع والإنصات عند قراءة القرآن في الصلاة وفي غيرها."

(ج: 3، ص: 52، الأعراف: 204، ط: دارا لكتب العلمية بيروت)

البرہان فی علوم القران للزرکشی میں ہے:

"استماع ‌القرآن ‌والتفهم ‌لمعانيه من الآداب المحثوث عليها ويكره التحدث بحضور القراءة قال الشيخ أبو محمد بن محمد عبد السلام والاشتغال عن السماع بالتحدث بما لا يكون أفضل من الاستماع سوء أدب على الشرع وهو يقتضي أنه لا بأس بالتحدث للمصلحة."

(النوع التاسع والعشرون في آداب تلاوته وكيفيتها، ج: 1، ص: 475، ط: دار المعرفه بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله ‌يجب ‌الاستماع ‌للقراءة مطلقا) أي في الصلاة وخارجها لأن الآية وإن كانت واردة في الصلاة على ما مر فالعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب، ثم هذا حيث لا عذر؛ ولذا قال في القنية: صبي يقرأ في البيت وأهله مشغولون بالعمل يعذرون في ترك الاستماع إن افتتحوا العمل قبل القراءة وإلا فلا، وكذا قراءة الفقه عند قراءة القرآن. وفي الفتح عن الخلاصة: رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اهـ أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه، أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم تأمل مطلب الاستماع للقرآن فرض كفاية."

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، ج: 1، ص: 546، ط: دارا الفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

«"السنة ‌في ‌التراويح إنما هو الختم مرة فلا يترك لكسل القوم، كذا في الكافي."

(كتاب الصلاة، فصل في التراويح، ج: 1، ص: 117، ط: دارالفكر بيروت)

البحرا لرائق میں ہے:

"وفي الخانية ‌يكره ‌للمقتدي ‌أن ‌يقعد في التراويح فإذا أراد الإمام أن يركع يقوم لأن فيه إظهار التكاسل في الصلاة والتشبه بالمنافقين قال تعالى {وإذا قاموا إلى الصلاة قاموا كسالى} [النساء: 142]."

(باب الوتر والنوافل،صلاة التراويح، ج: 2، ص: 75، ط: دارالفكر بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"قوله وسن في رمضان عشرون ركعة بعد العشاء قبل الوتر وبعده بجماعة والختم مرة بجلسة بعد كل أربع بقدرها) بيان ل‌‌صلاة التراويح وإنما لم يذكرها مع السنن المؤكدة قبل النوافل المطلقة لكثرة شعبها ولاختصاصها بحكم من بين سائر السنن والنوافل وهو الأداء بجماعة."

باب الوتر والنوافل، صلاة التراويح، ج: 2، ص: 71، ط: دارالفکر بیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509100773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں