بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے معاوضہ (اجرت) کا حکم


سوال

تراویح کے معاوضہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

تراویح کی نماز میں قرآنِ مجید سنا کر معاوضہ (اجرت) لینا اور لوگوں کے لیے معاوضہ (اجرت) دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے۔ اگر بلا اجرت تراویح  میں مکمل قرآنِ پاک سنانے والا کوئی دست یاب نہ ہو تو ایسی صورت میں بہتر ہے کہ "اَ لَمْ تَرَ كَیْفَ" سے تراویح پڑھا دی جائے، اس سے بھی تراویح کی سنت ادا ہوجائے گی۔

تاہم اگر تراویح پڑھانے والے کو بلا تعیین کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر کوئی شکوہ شکایت نہ ہو اور یہ دینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت سے خارج اور حد جواز میں داخل ہوسکتی ہے۔  (مأخوذ از کفایت المفتی، ج:3، ص:395)

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:6، ص:56، ط:دار الفكر-بيروت):

’’و قد أطنب في رده صاحب تبيين المحارم مستندا إلى النقول الصريحة، فمن جملة كلامه قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. و قال العيني في شرح الهداية: و يمنع القارئ للدنيا، و الآخذ و المعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة و إعطاء الثواب للآمر و القراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر و لو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا و وسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله و إنا إليه راجعون - اهـ.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144208201241

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں