بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح سے متعلق چند مسائل


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء دین ان مسائل کے بارے میں:

1۔ نمازِ تراویح کے بعد وتر کی نماز سے پہلے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا بآوازِ بلند کروانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

2۔ نمازِ تراویح کے اختتام پر یعنی تکمیلِ قرآن پاک کے دن اجتماعی طور پر وعظ کرنا، اجتماع کے لیے انتظام کرنا وغیرہ کا شرعی حکم کیا ہے؟

3۔ شرینی اور دیگر اشیاء تقسیم کرنا اور اس کے لیے اجتماعی چندہ کرنا، اس کے لیے مسجد میں اعلان کرنا، ترغیب دینا کیسا ہے؟

4۔ نمازِ تراویح کے امام کے لیے رقم جمع کرکے دینا اور امام کا رقم طے کیے بغیر نماز تراویح پڑھانا مگر تکمیلِ قرآن کے دن نمازیوں کا دینا اور امام کا لینا جب کہ عرف میں رواج اسی طرح کا ہو، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

1۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد  دعا کرنا ثابت ہے، جب اس پر عمل کیا جائے تو اجتماعی صورت عملاً پیدا ہوجاتی ہےلیکن اجتماعی دعا پر ایسا التزام کرنا کہ جو شخص اس اجتماعی دعا میں شامل نہ ہو رہا اس پر طعن و تشنیع کی جائے درست نہیں، تراویح کے بعد وتر سے پہلے اگر لازم سمجھے بغیر دعا کر لی جائے تو گنجائش ہے، اگر یہ دعاوتر کے بعد کی جائے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور اگر کوئی شخص یہ دعا نہیں کرتا تو اس پر بھی لعن طعن نہ کی جائے۔

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں ہے:

" بعد ختم تراویح دعا مانگنا درست ہے، اور مستحب ہے، اور معمول سلف و خلف ہے۔ پھر وتر کے بعد دعا ضروری نہیں ہے، ایک بار کافی ہے۔ یعنی ختم تراویح کے بعد کافی ہے۔"

(فتاویٰ دار العلوم دیوبند، ج: 4، ص: 192، ط: مکتبہ امداد العلوم ملتان)

2۔ تکمیلِ قرآن کے موقع پر چوں کہ لوگ بکثرت جمع ہوتے ہیں، اس لیے ایسے موقع پر مختصر وعظ وغیرہ کرنا جائز بلکہ مستحسن ہے،  خواہ یہ وعظ تکمیلِ قرآن اور تراویح کے متصل بعد ہو یا کچھ وقفہ دے کر رات میں کسی وقت ہو۔

کفایت المفتی میں ہے:

"مسجد میں تبلیغ یا وعظ کا جلسہ یا مشورہ کرکے اجتماع کرنا جائز ہے۔"

(کتاب الوقف، مسجد میں وعظ و نظم کی محفلوں کا بیان، ج: 10، ص: 396، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج: 2، ص: 225، ط: دار الفكر بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"‌فلا ‌يجوز ‌لأحد ‌مطلقا أن يمنع مؤمنا من عبادة يأتي بها في المسجد لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن."

(كتاب الصلاة، فصل استقبال القبلة بالفرج في الخلاء واستدبارها، ج: 2، ص: 36، ط: دار الكتب الإسلامي)

3۔   تراویح ختم ہونے پر شرینی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم  پر مٹھائی تقسیم کرنے  کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو اور بچوں کا  رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو اس کا ترک کردینا ضروری ہے، اور اگر  یہ مفاسد نہ پائے جائیں ، بلکہ کوئی خوشی سے تقسیم کردے یا امام یا سامع کے لیے لے آئے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، ایسی صورت میں  بہتر یہ ہے کہ خشک چیز تقسیم کی جائے، تاکہ مسجد کا فرش وغیرہ خراب نہ ہو اور مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"سوال : 1۔ رمضان المبارک میں تراویح میں ختم قرآن ہوتا ہے اس دن شیرینی تقسیم کرنا کیسا ہے؟ بینوا تؤجروا۔

2۔ شیرینی صرف ایک شخص کی طرف سے تقسیم ہوتی ہے۔ چندہ نہیں کرتے تو یہ درست ہے یا نہیں؟

3۔شیرینی جماعت خانہ میں تقسیم کرسکتے ہیں یا صحن میں کی جائے؟بینوا تؤجروا۔

الجواب:1۔ضروری نہیں ہے، لوگوں نے اسے ضروری سمجھ لیا ہے اور بڑی پابندی کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہے، مسجدوں میں بچوں کا اجتماع اور شور و غل وغیرہ خرابیوں کے پیشِ نظر اس دستور کو موقوف کردینا ہی بہتر ہے۔

2۔امامِ تراویح یا اور کوئی ختمِ قرآن کی خوشی میں کبھی کبھی شیرینی تقسیم کرے اور مسجد کی حرمت کا لحاظ رکھا جائے تو درست ہے۔

3۔مسجد کا فرش خراب نہ ہو، خشک چیز ہو اور مسجد کی بے حرمتی لازم نہ آئے تو درست ہے، بہتر یہ ہے کہ دروازے پر تقسیم کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب۔"

(مسائلِ تراویح، ج: 6، ص: 243-244،ط: دار الاشاعت)

البحر الرائق میں ہے:

"أخرجه المنذري مرفوعا : (جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم وبيعكم وشراءكم ورفع أصواتكم وسل سيوفكم وإقامة حدودكم وجمروها في الجمع واجعلوا على أبوابها المطاهر)."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج: 2، ص: 37، ط: دار الكتاب الإسلامي)

4۔تراویح کی نماز میں قرآنِ مجید سننے اور  سنانے پر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر ہدیۃً کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اور اور نہ ہی مطالبہ ہو اور دینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت میں داخل نہ ہوگی۔نیز اگر قرآن مجید سننے اور  سنانے والے کو رمضان المبارک میں تمام نمازوں یا ایک دو نماز کے لیے نائب امام یا مؤذن بنا دیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں یا اذان  سپرد کردی جائیں اور رمضان کے آخر میں طے شدہ تنخواہ  دے دی جائے تو جائز ہوگا۔

اسی طرح اگر مسجد کا امام یا مؤذن ہی تراویح میں قرآن سنائیں اور مسجد انتظامیہ رمضان المبارک میں مشاہرہ زیادہ یا دوگنا دے تو یہ صورت بھی تراویح کی

اجرت میں داخل نہیں ہوگی۔

فتاویٰ شامی    میں ہے:

"فالحاصل أن ‌ما ‌شاع ‌في ‌زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ"

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الإستئجار على الطاعات، ج: 6، ص: 56، ط: دار الفكر بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

"متأخرین فقہائے حنفیہ نے امامت کی اجرت لینے دینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، پس اگر امام مذکور سے معاملہ امامت نماز سے متعلق ہوا تھا تو درست تھا، لیکن قرآنِ مجید تراویح میں سنانے کی اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے، اگر معاملہ قرآن مجید  سنانے کے  لیے ہوا تھا تو ناجائز تھا ۔‘‘

(کتاب الصلاۃ، ج: 3، ص:  410، ط: ادارۃ الفاروق کراچی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں