بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مداومت نہیں کی تو یہ سنت کیوں ہے؟


سوال

کیا تراویح کی آٹھ رکعت پڑھنا جائز ہے؟ اور تراویح  پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مداومت نہیں کی تویہ کیوں   سنت ہے؟ اور اس پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، روایات میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات ادا کرنا ثابت ہے،  اور یہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کا معمول تھا، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور امتِ محمدیہ کے فقہاء کا اجماع ہے،  بیس سے کم جتنی رکعات تراویح ادا کی جائے گی اتنی رکعات تو ادا ہوجائیں گی، لیکن مکمل تراویح ادا نہیں ہوگی، اور چوں کہ بیس رکعات تراویح پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے اور سنتِ مؤکدہ کو مستقل طور پر یا سستی اور غفلت کی وجہ سے چھوڑ دینا باعثِ گناہ ہے، اور اس پر اصرار کرنے والا فاسق ہے اور روزِ قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی کا خطرہ ہے۔

باقی جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ تراویح آٹھ رکعت ہیں ،اس سلسلے میں ان کی بنیادی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی درج ذيل روایت ہے :

"حدثنا يحيى بن يحيى، قال: قرأت على مالك، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه سأل عائشة، كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان؟ قالت: ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان، ولا في غيره على ‌إحدى ‌عشرة ‌ركعة، يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، فقالت عائشة: فقلت: يا رسول الله أتنام قبل أن توتر، فقال: «يا عائشة إن عيني تنامان، ولا ينام قلبي."

(صحیح مسلم، باب صلاة الليل، وعدد ركعات النبي صلى الله عليه وسلم في الليل، وأن الوتر ركعة، وأن الركعة صلاة صحيحة، ج: 1، ص: 509 ط: دارإحياء التراث العربي / صحيح بخاري : ‌‌باب كان النبي صلى الله عليه وسلم تنام عينه ولا ينام قلبه، ج: 4، ص: 191، ط: السلطانية)

ترجمہ : "حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ: اللہ کے رسول رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چاررکعت ادافرماتے تھے، پس ان کی خوبی اورلمبائی کے بارے میں مت پوچھ (کہ وہ کتنی لمبی اور خوب ہوا کرتی تھیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں نے عرض کیاکہ: آپ وترپڑھنے سے پہلے سوجاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرادل نہیں سوتا۔"

غیر مقلدین حضرات مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ تراویح آٹھ ہیں،ان کی دلیل کے جواب میں حضرت مولانامحمدامین صفدراوکاڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

"ظاہر ہے کہ یہ حدیث نمازِ  تہجد کے بارہ میں ہے۔تاریخ الخلفاء کے مطابق15ھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت شروع کرائی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کاوصال57ھ میں ہوا۔   پورے بیالیس سال اماں جان ر ضی اللہ عنہاکے حجرہ کے ساتھ متصل مسجدِ نبوی میں 20رکعت تراویح کی بدعت جاری رہی، اماں جان خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت فرماتی ہیں کہ: جس نے اس دین میں بدعت جاری کی وہ مردودہے۔ (بخاری،مسلم)

مگر یہ ثابت نہیں کیا جاسکتاکہ اماں جان ر ضی اللہ عنہا نے بیالیس سال میں ایک دفعہ بھی اس تہجدوالی حدیث کوبیس تراویح والوں کے خلاف پیش فرمایاہو۔  اب دو ہی راستے ہیں: یا تو یہ مان لیا جائے کہ اس حدیث کاتراویح سے کوئی تعلق نہیں، اماں جان یہی سمجھتی تھیں، یایہ مان لیا جائے کہ اس حدیث کوبیس تراویح کے خلاف ہی سمجھتی تھیں، لیکن ان کے دل میں سنت کی محبت اور بدعت سے نفرت اتنی بھی نہ تھی جتنی آج کل کے ان پڑھ غیرمقلد میں ہے، یہ تورافضی ہی کی سوچ ہوسکتی ہے۔"

(تجلیاتِ صفدر، ج:3،ص:272، 273)

نیز خود غیر مقلدین کا بھی اس حدیث پر عمل نہیں، یہاں غیررمضان کالفظ ہے، وہ (غیرمقلدین) غیررمضان (رمضان کے علاوہ) میں تراویح نہیں پڑھتے، یہاں چار چار رکعت کا ذکرہے، وہ دو دو پڑھتے ہیں، یہاں گھر میں نماز کا ذکر ہے، وہ مسجد میں پڑھتے ہیں، یہاں تین وتر کا ذکر ہے، وہ ایک پڑھتے ہیں، یہاں بلاجماعت نمازکاذکرہے، وہ باجماعت پڑھتے ہیں، یہاں وترسے پہلے سونے کا ذکر ہے، وہ وتر سے پہلے نہیں سوتے۔"

(تجلیاتِ صفدر، ج:3، ص:333)

رہی بات تراویح کے سنت ہونے کی، تو واضح رہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کا اہتمام کرنا احادیث و آثار اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے، چناں چہ حدیث کی مشہور و معروف کتاب صحیح مسلم میں "‌‌باب الترغيب في قيام رمضان، وهو التراويح"کے تحت حدیث ہے:

"عن ‌عائشة «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد ذات ليلة فصلى بصلاته ناس. ثم صلى من القابلة فكثر الناس. ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم. فلما أصبح قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم. إلا أني خشيت أن تفرض عليكم. قال: وذلك في رمضان»."

(كتاب الصلاة، ج: 2، ص: 177، رقم: 761، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز (تراویح) پڑھی،  لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ  تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔"

خلفائے راشدین (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ) اور کبار صحابہ  کرام سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تراویح پڑھنا ثابت ہے، بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ (جو خود خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں سے ایک، اور بہت بڑے فضائل کے حامل ہیں) نے جلیل القدر فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں رمضان المبارک میں باجماعت تراویح کا اہتمام کروایا تو سب نے اس کی تحسین کی، کسی ایک نے بھی نکیر نہیں کی، چناں چہ مؤطا امام مالک میں ہے:

"كان ‌الناس ‌يقومون ‌في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعة."

(كتاب الصلاة في رمضان، ج: 1، ص: 115، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ: لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رمضان المبارک میں 23 رکعتیں پڑھتے تھے (بیس تراویح کی اور تین رکعات وتر کی)۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اور ان کے بعد دونوں خلیفۂ راشد کے دور میں بھی تراویح باجماعت بیس رکعات ادا کی جاتی رہی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم لوگوں سے زیادہ دین و شریعت کے معاملے میں سنجیدہ اور حساس تھے، دین میں اضافے کی تردید اور دین کی بنیادوں کی حفاظت میں کوئی ان جیسا نہیں ہوسکتا، ان کی مکمل زندگی اس کی شہادتوں سے بھر پور ہے۔ خصوصاً اعمالِ عبادت میں یہ حضرات،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ہدایت اور قرآن و سنت سے حاصل شدہ تعلیمات سے ہٹ کر کوئی قدم نہیں اُٹھاتے تھے،  اگر ان کے پاس سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی دلیل نہ ہوتی، کبھی بھی اسے اختیار نہ کرتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں باجماعت تراویح ادا فرمائی، باقی میں باجماعت ادا نہ کرنے کی وجہ بھی بیان فرمادی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد اب فرائض میں اضافے کا امکان بالکل بھی نہیں رہا، اس لیے تراویح جسے انفرادی ادا کرنے کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جماعت بھی ثابت ہوچکی تھی اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باجماعت پڑھنے پر اتفاق کرلیا، ان کا اختلاف نہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یقیناً ان حضرات کی نگاہوں میں اس کے مآخذ اور دلائل تھے، کیوں کہ صحابہ کرام کسی منکر اور بدعت بات پر جمع ہونے والے نہیں تھے، بلکہ وہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال وافعال دیکھ کر اس کی نقل کرنے والے تھے، اور اجماعِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وجہ سے بھی اس کی تاکید بڑھ جاتی ہے۔ نیزرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی  اپنے خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے  کا تاکیدی حکم دیا ہے، لہذا اُن حضرات کا کیا ہوا عمل بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مانند ہے، اور ان کی اطاعت بھی رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ہی اطاعت ہے۔

شرح مشکل  الآثار میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عليكم ‌بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين من بعدي وعضوا عليها بالنواجذ."

(‌‌باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الزمان الذي يجب على الناس فيه الإقبال على خاصتهم وترك عامتهم، ج: 3، ص: 223، ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: "رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میرے بعد میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا۔"

مذکوربالا دلائل کی  بنیاد پر فقہائے کرام نے تراویح کو سنتِ مؤکدہ قرار دیاہے، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے دور کے بعد سے لے کر آج تک تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، سلف صالحین سے پورے اہتمام کے ساتھ تراویح پڑھنا ثابت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌التراويح ‌سنة) ‌مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا.

(قوله سنة مؤكدة) صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: ‌التراويح ‌سنة ‌مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعا؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله صلى الله عليه وسلم... وفي شرح منية المصلي: وحكى غير واحد الإجماع على سنيتها، وتمامه في البحر. (قوله لمواظبة الخلفاء الراشدين) أي أكثرهم لأن المواظبة عليها وقعت في أثناء خلافة عمر رضي الله عنه، ووافقه على ذلك عامة الصحابة ومن بعدهم إلى يومنا هذا بلا نكير، وكيف لا وقد ثبت عنه صلى الله عليه وسلم «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ» كما رواه أبو داود بحر."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 44،43، ط: سعيد)

التلویح علی التوضیح لمتن التنقیح میں ہے:

"وترك السنة المؤكدة ‌قريب ‌من ‌الحرام يستحق حرمان الشفاعة لقوله: عليه السلام «من ترك سنتي لم ينل شفاعتي»."

(القسم الثاني من الكتاب في الحكم، باب في الحكم،القسم الأول، ج: 2، ص: 253، ط: دار الكتب العلمية)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"اختلفوا فيها ‌وينقطع ‌الخلاف برواية الحسن عن أبي حنيفة رحمهما الله تعالى أن التراويح سنة لا يجوز تركها؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أقامها ثم بين العذر في ترك المواظبة على أدائها بالجماعة في المسجد وهو خشية أن تكتب علينا ثم واظب عليها الخلفاء الراشدون رضي الله عنهم وقد قال النبي صلى الله عليه وسلم «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي» وأن عمر رضي الله عنه صلاها بالجماعة مع أجلاء الصحابة فرضي به علي رضي الله عنه حتى دعا له بالخير بعد موته كما ورد وأمر به في عهده. (قال) ولو صلى إنسان في بيته لا يأثم هكذا كان يفعله ابن عمر وإبراهيم والقاسم وسالم الصواف رضي الله عنهم أجمعين - بل الأولى أداؤها بالجماعة لما بينا."

(كتاب التراويح، الفصل الثالث في بيان كونها سنة متوارثة أم تطوعا مطلقة مبتدأة، ج: 2، ص: 145، ط: دار المعرفة)

محیطِ برہانی میں ہے:

"‌أما ‌الكلام ‌في ‌صفتها، فنقول: التراويح سنة هو الصحيح من المذهب، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة رحمة الله عليه نصا، والدليل على أنها سنة قوله عليه السلام: «إن الله تعالى فرض عليكم صيامه وسننت لكم قيامه» ، وقد صح أنه عليه السلام أقامها في بعض الليالي، وبين العذر في ترك المواظبة عليها، وهو خشية أن تكتب علينا ثم واظب عليها الخلفاء الراشدون، وقال عليه السلام: «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي» ، وقال عليه السلام في حديث سلمان؛ «إن الله تعالى فرض عليكم صيامه وسن لكم قيامه» ، فهذا الخبر يشير إلى أنه سنة الله، ومعناه: موضع الله ومرضاته وإنها سنة الرجال والنساء جميعا ما روى عرفجة بن عبد الله الثقفي عن علي رضي الله عنه، بدليل أنه كان يأمر النساء بصيام رمضان، وكان يجعل للرجال إماما وللنساء إماما، قال عرفجة: فأمرني فكنت إماما للنساء. وعن هشام بن عروة عن أبي مكية أن عائشة رضي الله عنها أعتقت ديجون عن دين، مكان قومها ومن معها في رمضان في المصحف، وقال أبو حنيفة رحمه الله لم يرد ذلك، فإنه روى في إبراهيم النخعي رحمه الله أنه قال: كانوا يكرهون أن يؤم الوصل في المصحف، لما فيه من الشبه باليهود. وأما الكلام في كمها، فنقول إنها مقدرة العشرين ركعة عندنا."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثالث عشر في التراويح والوتر، ج: 1، ص: 456، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں