بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختمِ قرآن کے لیے دن متعین کرنا


سوال

 ختم تراویح کے لیے دن متعین کرنا (مثلاً دس دن میں، پندرہ دن میں، اکیس دن میں) کیسا ہے؟ کیا دن متعین کرنا بدعت کے زمرے میں بھی آتا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ رمضان المبارک میں ایک مرتبہ تراویح میں مکمل قرآن کریم  پڑھنا سننا سنت ہے اور شرعاً اس کے لیے ایام کی کوئی تعیین نہیں ہے، لہٰذا  تراویح میں ختمِ قرآن کے لیےموجودہ زمانے میں دن متعین کرنامثلاً پندرہ روزہ،اکیس روزہ،یہ محض لوگوں کی سہولت کے پیش نظرہوتاہے،اس میں شرعی طور پر  کسی دن کاالتزام مقصود نہیں ہوتا،لہذاختم قرآن کے لیے دن متعین کرنابدعت نہیں،حسبِ توفیق جس تاریخ کو بھی ختم کیاجائے اس میں شرعاًکوئی ممانعت نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والختم) مرة سنة ومرتين فضيلة وثلاثا أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لا يثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثا قصارا أو آية طويلة في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآية أو آيتين لا يكره، ومن لم يكن عالما بأهل زمانه فهو جاهل."

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 47، ط: دار الفكر بيروت)

"مراقى الفلاح شرح نورالإيضاح"میں ہے:

"وسن ‌ختم ‌القرآن فيها" أي التراويح "مرة ‌في الشهر على الصحيح" وهو قول الأكثر رواه الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله يقرأ في كل ركعة عشر آيات أو نحوها وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه كان يختم ‌في رمضان إحدى وستين ختمة ‌في كل يوم ختمة وفي كل ليلة ختمة وفي كل ‌التروايح ختمة."

(فصل فى التراويح، ص:158، ط:المكتبة العصرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں