بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ایک سانس میں کئی آیات پڑھنا


سوال

ہمارے یہاں حفاظ کرام تراویح میں قرآن سناتے ہیں تو قراءت کرتے ہوۓ جہاں سانس توڑنا چاہیۓ یعنی آیت پر سانس  نہیں توڑتے ،بلکہ ایسے ہی ایک سانس میں دوسری آیت اسی میں پڑھ دیتے ہیں تو اس سے نماز کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں     بہتر تو یہ یہی ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک آیت پڑھنی چاہیے تاکہ نماز میں خشوع وخضوع پیدا ہو، تاہم اگر کوئی حافظ ہر آیت پر وقف کرنے کے بجائے وصل کرتا ہے اور  آیتوں کو ملا لیتا ہے تو اگر آخری حرف کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے تو اس طرح پڑھنا درست ہےاور اگر آخری حرف کی  حرکت کو ظاہر نہیں کرتا تو یہ اصول تجوید کے خلاف ہے، تاہم نماز  درست ہوجائے گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها الوقف والوصل والابتداء في غير موضعها) إذا ‌وقف في غير موضع الوقف أو ابتدأ في غير موضع الابتداء إن لم يتغير به المعنى تغيرا فاحشا نحو أن يقرأ {إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات} [البينة: 7] ووقف ثم ابتدأ بقوله {أولئك هم خير البرية} [البينة: 7] لا تفسد بالإجماع بين علمائنا. هكذا في المحيط وكذا إن وصل في غير موضع الوصل كما لو لم يقف عند قوله أصحاب النار بل وصل بقوله {الذين يحملون العرش} [غافر: 7] لا تفسد لكنه قبيح. هكذا في الخلاصة وإن تغير به المعنى تغيرا فاحشا نحو أن يقرأ {شهد الله أنه لا إله} [آل عمران: 18] ووقف ثم قال: {إلا هو} [آل عمران: 18] لا تفسد صلاته عند عامة علمائنا وعند البعض تفسد صلاته والفتوى على عدم الفساد بكل حال. هكذا في المحيط وقال القاضي الإمام السعيد النجيب أبو بكر إذا فرغت من القراءة وتريد أن تكبر للركوع، إن كان الختم بالثناء فالوصل بالله أكبر أولى، ولو لم يكن بالثناء فالفصل أولى كقوله تعالى {إن شانئك هو الأبتر} [الكوثر: 3] . هكذا في التتارخانية."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:81، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101925

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں