بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں قرآن سنانے پر پہلے سے اجرت طے کرنے کا حکم


سوال

تراویح سنانے کے لیے کسی قاری صاحب کو اجرت پر قرآن پاک سنانے کے لیے پہلے سے اجرت طے کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح پر اجرت   طے کرکے  لینا دینا   جائز نہیں  ہے  ، اور اگر زبانی طور پر طے نہ کیا جائے لیکن عرف و رواج  ایسا ہو کہ زبانی طے کئے بغیر بھی لینا دینا طے  سمجھا جاتا ہو  تو اس صورت میں  بھی ناجائز ہے ، البتہ اگر  نہ  زبانی  طے کیا ہو اور نہ عرف و رواج میں طے سمجھا جاتا ہو ،اور نہ حافظ قرآن کے  دل میں  پڑھانے کا داعیہ  اور محرک یہ  بات ہو کہ کچھ ملے گا ، اس کے بعدچندہ کیے بغیر اگر کوئی شخص یا کئی اشخاص   اپنی طرف سے حافظ صاحب کو کچھ ھدیۃًدینا چاہیں تو اس  صورت میں  فرداً فردًا  دینا اور حافظ صاحب کے لیے لینا جائز ہوگا  ۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن (زاذان) قال: سمعته يقول: من ‌قرأ ‌القرآن ‌يأكل ‌به ‌جاء ‌يوم القيامة ووجهه عظم ليس عليه لحم."

(مصنف ابن أبي شيبه، كتاب الصلاة، باب في الرجل يقوم بالناس في رمضان فيعطى، رقم الحديث:7741، ج:2، ص:168، ط:مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي سعيد : أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم مروا بحي من العرب فلم يقروهم ولم يضيفوهم فاشتكى سيدهم فأتونا فقالوا هل عندكم دواء ؟ قلنا نعم ولكن لم تقرونا ولم تضيفونا فلا تفعل حتى تجعلوا لنا جعلا فجعلوا على ذلك قطيعا من الغنم قال فجعل رجل منا يقرأ عليه بفاتحة الكتاب فبرأ فلما أتينا النبي صلى الله عليه و سلم ذكرنا ذلك له قال وما يدريك أنها رقية ولم يذكر نهيا منه وقال كلوا واضربوا لي معكم بسهم."

(جامع الترمذی ،أبواب الطب، ج:2، ص:471، ط:رحمانیة)

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا،  والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛  فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا -إنالله وإنا إليه راجعون- ...واختلفوا ‌في ‌الاستئجار ‌على ‌قراءة ‌القرآن ‌مدة ‌معلومة.قال بعضهم: لا يجوز: وقال بعضهم: يجوز وهو المختار اهـ والصواب أن يقال على تعليم القرآن، فإن الخلاف فيه كما علمت لا في القراءة المجردة فإنه لا ضرورة فيها، فإن كان ما في الجوهرة سبق قلم فلا كلام، وإن كان عن عمد فهو مخالف لكلامهم قاطبة فلا يقبل."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ،مطلب : تحرير مهم في عدم جواز الإستئجار على التلاوة، ج:6، ص:56، ط:سعید)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"كل ‌طاعة ‌يختص بها المسلم فالاستئجار عليها باطل وعلى قول الشافعي كل ما لا يتعين على الأجير إقامته فالاستئجار عليه صحيح، وقد بينا الكلام فيه في كتاب المناسك في الاستئجار على الحج والدليل على أنه لا يجوز الإستئجار على تعليم القرآن حديث عبد الرحمن بن شبل الأنصاري - رضي الله عنه - أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به. وقال صلى الله عليه وسلم لمدرس العلم إياك والخبز الرقاق والشرط على كتاب الله تعالى  ولما أقرأ أبي بن كعب - رضي الله عنه - رجلا سورة من القرآن أعطاه على ذلك قوسًا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أتحب أن يقوسك الله بقوس من نار فقال لا قال - صلى الله عليه وسلم - رد عليه قوسه."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:16، ص:37، ط:دارالمعرفة)

البنایہ شرح الھدایہ میں ہے:

"والأصل أن ‌كل ‌طاعة ‌يختص بها المسلم لا يجوز الإستئجار عليه عندنا، وعند الشافعي يصح في كل ما لا يتعين على الأجير؛ لأنه استئجار على عمل معلوم غير متعين عليه فيجوز. ولنا قوله عليه الصلاة والسلام: اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به...ولا يجوز أن يستأجر رجل رجلا أن يعلم ولدا القرآن والفقه والفرائض، أو يؤمهم في رمضان."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، فصل الإستئجار على الطاعات، ج:10، ص:278، ط:دار الكتب العلمية۔بيروت)

موسوعہ قواعد فقہیہ ہے:

"المعروف بالعرف كالمشروط بالنّصّ ....وفي لفظ: المعروف عرفاً كالمشروط شرطاً."

(‌‌القاعدة الثّالثة والسّتّون بعد الأربعمئة، ج:10، ص:749، ط:مؤسسة الرسالة۔بيروت)

تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"ولا شك أن ‌التلاوة ‌المجردة عن التعليم من أعظم الطاعات التي يطلب بها الثواب فلا يصح الإستئجار عليها؛ لأن الإستئجار بيع المنافع وليس للتالي منفعة سوى الثواب ولا يصح بيع الثواب ولأن الأجرة لا تستحق إلا بعد حصول المنفعة للمستأجر والثواب غير معلوم."

(كتاب الإجارة، ج:2، ص:218، ط:قديمى)

امداد الاحکام میں ایک سوال کے جواب میں ہےکہ :

"جو شخص مسجد کا امام معین نہیں اسکو محض تراویح سنانے پر کچھ روپیہ لینا ناجائز ہے۔ اور اگر امام مسجد ہے تو اسکو محض تنخواہ معینہ کا لینا جائز ہے ، تراریح سناکر اس سے زیادہ لینا ناجائز ہے خواہ کسی غرض کے لیے لیا جائے ۔ رہا یہ عذر کہ لوگ محض خوشی سے ہدیہ دیتے ہیں ، تراویح کا عوض نہیں دیتے، سراسرغلط تاویل ہے۔، اگر  ہدیہ طیب  نفس ہے عوض تراویح نہیں تو اور ایام میں کیوں نہیں دیتے ؟ اوربدون تراویح سننے کیوں نہیں دیتے ؟ "

(کتاب الاجارۃ، ج:3، ص:534، ط:مکتبۃ دارالعلوم کراچی)

فتاوی محمودیہ میں  ایک سوال کے جواب میں ہے کہ:

الجواب حامداًومصليا:

تراویح میں قرآن پاک سنانے کی اجرت لینا جائز نہیں، اگر پہلے سے باقاعدہ اجرت طے نہ کی جاۓ ،لیکن دستور کے موافق امام کے ذہن میں بھی ہے کہ مجھے ملے گا اور نمازیوں کے ذہن میں بھی ہے کہ امام کو دیا جاۓ گا تو المعروف کالمشروط“ کے تحت ہی صورت بھی طے کرنے کے حکم میں ہو کر نا جا ئز ہے ۔

(کتاب الاجارۃ، باب الاستیجار علی الطاعات، ج:17، ص:74، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں ہےکہ:

"مصلیوں میں سےاگر کوئی صاحب ِ خیر حافظ صاحب کے افطار وسحری وغیرہ کا انتظام کردیں اور آخر میں بطورِ ہدیہ یا بطورِ امداد کچھ پیش کریں تو یہ قابلِ اعتراض نہیں ، بطورِ اجرت دینا ممنوع ہے۔"

(مسائل تراویح، ج:6، ص:257، ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100700

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں