بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں آیات چھوڑ کے آگے جانا


سوال

 بندہ ایک جگہ تراویح پڑھا رہا ہے اور وہاں دوسرے حافظ صاحب نے پہلے پندرہ پڑھانے تھے جبکہ منزل یاد نہ ہونے کی وجہ سے وہ منزل مقررہ مقدار میں نہیں پڑھ پاتا اس وجہ سے بندہ نے یہ ترتیب بنائی کہ بندہ پورا قرآن خود پڑھائےگا جبکہ دوسرے حافظ صاحب پہلی چار رکعت میں جتنی منزل پڑھنا چاہیں پڑھیں باقی اگلی سولہ رکعت میں بندہ اپنی منزل ترتیب سے پڑھا ۓ تو کیا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں اگر ہے تو جو اس  کی منزل میں غلطی رہ جائے گی اس کا لوٹانا لازمی ہوگا۔

جواب

  صورت مسئولہ میں اگر سائل   پورا قرآن مجید  سنا رہا ہے ،اور دوسرے حافظ صاحب صرف پہلی چار رکعات ہی میں قرآن سنائے گا تو اس طرح کرنا جائز ہوگا۔ باقی  اگر یہ حافظ  صاحب درمیان میں آیت چھوڑے تو لقمہ دینا چاہیے تاکہ قرآن کریم صحیح طور پر پڑھا جائے   ۔اگر دونوں مل کر پورا قرآن سنا رہے ہیں تو پھر اگر چھوٹی ہوئی آیات کا اعادہ نہ کیا گیا تو تراویح میں پوراقرآن کریم پڑھنے کی سنت پوری نہیں ہو گی لہٰذا ان آیا ت کا اعادہ کیا جائے ،اعادہ کرنے کا صحیح طریقہ  یہ ہے ،چھوٹی ہوئی آیا ت  کے ساتھ بعد والی کا بھی اعادہ کیا  جائے تاکہ ترتیب باقی رہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(قوله ولو من سورة إلخ) ۔۔۔ لو انتقل في الركعة الواحدة من آية إلى آية يكره وإن كان بينهما آيات بلا ضرورة؛ فإن سها ثم تذكر يعود مراعاة لترتيب الآيات شرح المنية."

(كتاب الصلاة ،فصل في القراة ،ج :1 ،ص :546 ،ط :سعيد كراچي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے  :

"وإذا غلط في القراءة في التراويح فترك سورة أو آية وقرأ ما بعدها فالمستحب له أن يقرأ المتروكة ثم المقروءة ليكون على الترتيب، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلاة ،الباب التاسع في النوافل ،‌‌فصل في التراويح ،ج :1 ،ص :130 ،ط :دار الكتب العلمية)

وفيها ايضا :

"(ومنها) حذف حرف إن كان الحذف على سبيل الإيجاز والترخيم فإن وجد شرائطه نحو أن قرأ ونادوا يا مال لا تفسد صلاته وإن لم يكن على وجه الإيجاز والترخيم فإن كان لا يغير المعنى لا تفسد صلاته نحو أن يقرأ ولقد جاءهم رسلنا بالبينات بترك التاء من جاءت وإن غير المعنى تفسد صلاته عند عامة المشايخ نحو أن يقرأ فما لهم يؤمنون في لا يؤمنون بترك لا هكذا في المحيط وفي العتابية هو الأصح. كذا في التتارخانية."

(كتاب الصلاة ،الباب الرابع في صفة الصلاة ،الفصل الخامس في زلة القارئ ،ج :1 ،ص :88 ،ط :دار الكتب العلمية)

تاتارخانیہ میں ہے :

" وإذا غــلــط في القراءة في التراويح، وترك سورة أو آية، وقرأ مابعد فالمستحب له أن يقرأ المتروكة ثم المقروءة، ليكون قد قرأ القرآن على نحوه."

(كتاب الصلاة ،الفصل الثالث عشر في التراويح  ،ج :2 ،ص :326 ،ط :مكتبة زكريا )

وفيهاايضا:

" وإذا انتقل من آية إلى آية أخرى من سورة أخرى أو من هذه السورة وبينهما آيات، يكره."

(كتاب الصلاة ،فصل في القراة ،ج :2 ،ص :67 ،ط :مكتبة زكريا)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں