بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تروایح میں تکمیل قرآن کے موقع پر بیانات، نعتیں پڑھوانا، اور شرینی تقسیم کرنے کا حکم


سوال

 ہم بریلوی حضرات کو کہتے ہیں کہ میلاد منانا جائز نہیں ہے،  کیو ں کہ یہ دین میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بدعت ہے،  تو وہ آگے سے کہتے ہیں،  کہ پھر رمضان المبارک میں تراویح میں تکمیل قرآن کے موقع پر علماء سے بیانات کروانا اور نعتیں پڑھوانا اور آخر میں شیرینی تقسیم کرنا کیسے جائز ہوگیا؟ کیوں کہ یہ بھی تو دین میں اضافہ ہی ہے،  اور دین میں اضافہ بدعت ہے،  تو میں نے پوچھنا یہ تھا کہ جب یہ کام بدعت ہے تو پھر علماء دیوبند یہ کام کیوں کرتے ہیں اور اگر یہ کام جائز ہے تو کیسے جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ   شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں: " دین میں کسی ایسے  کام کا  اضافہ  کرنا،  جس کی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو، اور جو  صحابہ رضی اللہ عنھم،  تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولا،  ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ اشارۃً ، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر  اہتمام اور التزام کے ساتھ  کیا جائے"،فقہاء کرام بھی جب مطلق بدعت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے یہی مصطلح معنی مراد ہوتا ہے، اور احادیث میں بھی جس بدعت کی مذمت بیان کی گئی ہے،  اس سے بھی یہی مراد ہے۔

صحيح البخاري  میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أحدث ‌في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."

ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے ہماری دین میں ایسی بات ایجاد کی جس کا تعلق  ہمارے حکم سے  نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے

(صحيح البخاري، باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج:2، ص:959،  رقم:2550، ط:دار ابن كثير)

صحيح مسلم ہے:

"عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌من ‌عمل عملا ليس عليه أمرنا ‌فهو ‌رد."

ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے (دین سمجھ کر) ایسا کام کیا جس کے تعلق سے ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔"

(صحيح مسلم،‌‌باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور،  ج:5، ص:132،  رقم:1718، ط:دار الطباعة العامرة التركية)

چناں چہ آپ کے مسائل اور ان کا حل میں مولانا یوسف  لدھیانوی  رحمہ اللہ  بدعت کی تعریف میں لکھتے ہیں:

"خلاصہ یہ کہ دین میں کوئی ایسا نظریہ، طریقہ اور عمل ایجاد کرنا بدعت ہے جو:

الف:…طریقہٴ نبوی کے خلاف ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ قولاً ثابت ہو، نہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ دلالةً نہ اشارةً۔

ب:…جسے اختیار کرنے والا مخالفت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سے بطورِ ضد و عناد اختیار نہ کرے، بلکہ بزعم خود ایک اچھی بات اور کارِ ثواب سمجھ کر اختیار کرے۔

ج:…وہ چیز کسی دینی مقصد کا ذریعہ و وسیلہ نہ ہو بلکہ خود اسی کو دین کی بات سمجھ کر کیا جائے۔"

(آپ کے مسائل اور ان کا حل، باب سنت و بدعت، ج:1، ص:438، ط:مکتبہ لدھیانوی)

اسی طرح جواہر الفقہ میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اصل لغت میں بدعت ہر نئی چیز کو کہتے ہیں، خواہ عبادات سے متعلق ہو، یا عادات سے، اور اصطلاح شرع میں ہر ایسے نو ایجاد طریقہ عبادت کو بدعت کہتے ہیں، جو زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے بعد اختیار کیا گیا ہو۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عہد مبارک میں اس کا داعیہ اور سبب موجود ہونے کے باوجود نہ قولاً ثابت ہو، نہ فعلاً نہ صراحت نہ اشارہ ، بدعت کی یہ تعریف علامہ بر کوئی کی کتاب " الطریقۃ الحمد یہ اور علامہ شاطبی کی کتاب " الاعتصام" سے لی گئی ہے۔"

(کتاب السنۃ و البدعۃ، ج:1، ص:458، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

لہذا بدعت کی تعریف سمجھنے کے بعد یہ بات ملحوظ رہے کہ   بریلویوں کا مروجہ میلاد  منانا درج ذیل وجوہات کے بنا پر  بدعت ہے کہ :

1۔بریلوی   مروجہ میلاد  کو دین اور عبادت سمجھ کر  مناتے ہیں، اور جو  لوگ نہیں مناتے ان پر نکیر کرتے ہیں۔

2۔التزام ما لا یلزم یعنی اس کو لازم  اور ضروری سمجھتے ہے، اور ہر سال بلا وقفہ مناتے ہیں۔

3۔نیز مروجہ میلاد کی مجالس کے خاص کیفیات کے ساتھ التزام کیا جاتاہے۔

4۔اسی طرح مروجہ میلاد اتداعی بھی  پائی جاتی ہے، جو درست نہیں ہے، کیوں   کہ تداعی تو  امرِ مندوب کے واسطے بھی  منع ہے ۔

5۔دین کے نام پر    مذکورہ مجالس کے اندر مر و زن کا اختلاط بھی بعض جگہ  ہوتا ہے، جو قطعاً جائز نہیں ہے۔

جب کہ تروایح  میں تکمیل قرآن کے موقع پر  بیانات کروانا اور نعتیں پڑھوانا  اور شرینی تقسیم کرنا ، اس لیے بدعت نہیں ہےکہ:

1۔    اس کو ضروری  اور اپنے اوپر لازم نہیں سمجھا جاتا ہے۔

2۔اور نہ کرنے والوں پر کوئی نکیر نہیں کرتا۔

3۔اس پر التزام اور مداومت  نہیں کرتے۔

انہی وجوہات کے بنا پر  اگر کہیں   ترویح میں تکمیل قرآن کے موقع پر  مذکورہ اعمال  ہر سال اہتمام اور التزام  سے کیا جاتا ہو، اور اس کو ضروری سمجھتے ہوں  تو پھر وہ بھی بدعت میں شمار ہوگا، اور اس سے اجتناب ضروری ہوگا؛،کیوں کہ کوئی  مباح اور جائز کام پر بھی  اتنی مداومت کرناکہ جس سےلوگوں کو اس کے عبادت اور لازم  ہونے کاگمان ہونےلگے،تو ایسا کام بدعت اور قابلِ ترک ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح المشکاۃ میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد...(من أحدث) ، أي: جدد وابتدع أو أظهر واخترع في أمرنا هذا) ، أي: في دين الإسلام...قال القاضي: المعنى ‌من ‌أحدث في الإسلام رأيا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فهو مردود عليه."

(کتاب الإيمان،باب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج:1، ص:221، ط:دار الفكر،بيروت)

الاعتصام للشاطبي میں ہے:

"ومنها: ‌التزام ‌الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك..ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته..وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية."

(الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ج:1، ص:53، ط:دار ابن عفان، السعودية)

 "مرقاة المفاتيح شرح المشکاۃ میں ہے:

"البدعة كل شيء عمل على غير ‌مثال ‌سبق، وفي الشرع إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم... قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام في آخر كتاب " القواعد ": البدعة إما واجبة كتعلم النحو لفهم كلام الله ورسوله وكتدوين أصول الفقه والكلام في الجرح والتعديل، وإما محرمة كمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة، والرد على هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض كفاية، وإما مندوبة كإحداث الربط والمدارس."

(كتاب الإيمان ،باب الاعتصام بالكتاب والسنة ،ج:1،ص:223 ،ط:دارالفكر)

الاحیاء العلوم للغزالی رحمہ اللہ "میں ہے

"إذا لم يرد فيه نهي فلا ينبغي أن ‌يسمى ‌بدعة ومكروها ولكنه ترك للأحب....فالقاص إن كان يكذب في أخباره فهو فاسق والإنكار عليه واجب وكذا الواعظ المبتدع يجب منعه ولا يجوز حضور مجلسه إلا على قصد إظهار الرد عليه إما للكافة إن قدر عليه أو لبعض الحاضرين حواليه فإن لم يقدر فلا يجوز سماع البدع."

(‌‌كتاب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر،ج:2،ص:336،ط:دارالمعرفة)

 قواعد الإحكام  لعز ابن عبد السلام  میں ہے:

"‌‌[فصل في البدع]البدعة فعل ما لم يعهد في عصر رسول الله - صلى الله عليه وسلم -. وهي منقسمة إلى: ‌بدعة ‌واجبة، وبدعة محرمة، وبدعة مندوبة، وبدعة مكروهة، وبدعة مباحة، والطريق في معرفة ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة: فإن دخلت في قواعد الإيجاب فهي واجبة، وإن دخلت في قواعد التحريم فهي محرمة، وإن دخلت في قواعد المندوب فهي مندوبة، وإن دخلت في قواعد المكروه فهي مكروهة، وإن دخلت في قواعد المباح فهي مباحة، وللبدع الواجبة أمثلة..وللبدع المكروهة أمثلة..منها: زخرفة المساجد، ومنها تزويق المصاحف، وأما تلحين القرآن بحيث تتغير ألفاظه عن الوضع العربي، فالأصح أنه من البدع المحرمة."

(فصل في البدع ،ج:2،ص:204، 205 ،ط:دار ام القرى)

البحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے :

"ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن ‌مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع."

(كتاب الصلوة ،باب العيدين ،باب مايفعله عيد الفطر،ج:2،ص:172 ،ط:دارالكتب العلمية)

الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي  میں ہے:

"الموالد والأذكار التي تفعل عندنا أكثرها مشتمل على خير، كصدقة، وذكر، وصلاة وسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم ومدحه، وعلى شر بل شرور لو لم يكن منها إلا رؤية النساء للرجال الأجانب، وبعضها ليس فيها شر لكنه قليل نادر، ولا شك أن القسم الأول ممنوع للقاعدة المشهورة المقررة أن درء المفاسد مقدم على جلب المصالح، فمن علم وقوع شيء من الشر فيما يفعله من ذلك فهو عاص آثم، وبفرض أنه عمل في ذلك خيرا، فربما خيره لا يساوي شره ألا ترى أن الشارع صلى الله عليه وسلم اكتفى من الخير بما تيسر وفطم عن جميع أنواع الشر حيث قال: (إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم، وإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه) فتأمله تعلم ما قررته من أن الشر وإن قل لا يرخص في شيء منه، والخير يكتفى منه بما تيسر."

(مطلب الإجماع للموالد ولأذكار و صلاة التراويح مطلوب ما لم يترتب عليه شر و الا فيمنع منه  سوال:٩٠،ص:109، ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"هل الاجتماع للبدع المباحة جائز؟ جوابه: نعم جائز. قال العز بن عبد السلام رحمه الله تعالى: البدعة فعل ما لم يعهد في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، وتنقسم إلى خمسة أحكام يعني الوجوب والندب الخ، وطريق معرفة ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشرع فأي حكم دخلت فيه فهي منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذي يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة ومن البدع المكروهة زخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب  وإلا فهي محرمة، وفي الحديث (كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار) وهو محمول على المحرمة لا غير، وحيث حصل في ذلك الاجتماع لذكر، أو صلاة التراويح أو نحوها محرم، وجب على كل ذي قدرة النهي عن ذلك وعلى غيره الامتناع من حضور ذلك وإلا صار شريكا لهم، ومن ثم صرح الشيخان بأن من المعاصي الجلوس مع الفساق إيناسا لهم."

(مطلب الإجماع للموالد ولأذكار و صلاة التراويح مطلوب ما لم يترتب عليه شر و الا فيمنع منه  سوال:٩١،ص:109، ط:دار الفكر)

المدخل لابن الحاج میں ہے:

"ومن جملة ‌ما ‌أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ‌ربيع ‌الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة. فمن ذلك استعمالهم المغاني ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا في ذلك على العوائد الذميمة في كونهم يشتغلون في أكثر الأزمنة التي فضلها الله تعالى وعظمها ببدع ومحرمات ولا شك أن السماع في غير هذه الليلة فيه ما فيه. فكيف به إذا انضم إلى فضيلة هذا الشهر العظيم الذي فضله الله تعالى وفضلنا فيه بهذا النبي صلى الله عليه وسلم الكريم على ربه عز وجل. وقد نقل ابن الصلاح - رحمه الله تعالى - أن الإجماع منعقد على أن آلات الطرب إذا اجتمعت فهي محرمة."

 (المرتبة الثانية المواسم التي ينسبونها إلى الشرع وليست منه، فصل في مولد النبي والبدع المحدثة فيه،ج:2، ص:2، ط:مصطفى البابي الحلبي مصر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وسجدة الشكر: مستحبة به يفتى لكنها تكره بعد الصلاة لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه.(قوله فمكروه) الظاهر أنها تحريمية لأنه يدخل في الدين ما ليس منه."

(کتاب الصلاۃ،باب سجود التلاوۃ، ج:2، ص:119، ط:سعید)

العقود الدرية في تنقيح فتاوي الحامدية  میں ہے:

"فائدة:كل ‌مباح ‌يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه كتعيين السورة للصلاة وتعيين القراءة لوقت ونحوه."

(كتاب الفرائض، ج:2، ص:574، ط:قديمي كتب خانه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں