بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی ابتداء کب ہوئی؟ روضہ اطہر پر کسی اور کی طرف سے سلام عرض کرنا


سوال

مندرجہ ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمائیں:

(1) تراویح کا حکم کس سن میں نازل ہوا.؟

(2) روضۂ رسول ﷺ پر مرحومین کی طرف سے سلام کرنے کا کیا حکم ہے.؟ مرحومین نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو بہر دو صورتوں کا حکم کیا ہے.؟

(3) اسی طرح ایسے زندہ لوگوں یعنی والدین، اساتذہ کرام ، مشائخ، عزیز و اقارب، دوست و احباب کی طرف سے سلام عرض کرنے کا کیا حکم ہے.؟ خواہ ان میں سے کسی نے سلام عرض کرنے کو کہا ہو یا نہیں.؟ 

جواب

1۔تراویح کا حکم کس سن میں نازل ہوا؟ اس بارے میں صراحتاً تو کوئی روایت نہ مل سکی، البتہ اتنی بات یقینی ہے کہ تراویح کی ابتداء ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔

2، 3۔ جن لوگوں نے روضہ مبارکہ پر سلام عرض کرنے کی وصیت کی ہو، (چاہے وہ زندہ ہوں، یا مرحومین ہوں) ان کی طرف سے روضہ اطہر پر سلام عرض کرنا تو درست ہے، لیکن جس نے وصیت نہ کی ہو، اس کی طرف سے سلام عرض نہ کیا جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"أخبرني ‌عروة : أن ‌عائشة رضي الله عنها أخبرته: «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، وصلى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد، ثم قال: أما بعد، فإنه لم يخف علي مكانكم، ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها. فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌والأمر ‌على ذلك".

(صحیح البخاری، کتاب صلوۃ التراویح، باب فضل من قام فی شہر رمضان،رقم الحدیث:2012،  ج:3، ص:45، ط:دارطوق النجاۃ)

وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفي ميں  ہے:

"وقال النووي عقب ما تقدم عنه: ثم إن كان قد أوصاه أحد بالسلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم فليقل: السلام عليك يا رسول الله من فلان بن فلان، أو فلان بن فلان يسلم عليك يا رسول الله، ونحوه من العبارات."

(‌‌الباب الثامن في زيارة النبي   صلى الله عليه وسلم ، ج:4، ص:212، ط:دار الكتب العلمية)

تراویح کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا میں ہے:

تراویح کی نماز سب سے پہلے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمائی، اس کے بعد دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 14 ہجری میں صحابہ کرام کو ایک جماعت پر جمع فرمایا۔

(حرف:ت، ص:46، ط:بیت العمار)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں