بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراويح كا ثبوت


سوال

کیا تراویح  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؟

جواب

''صحیح بخاری '' میں حضرت  زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی ، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلے دن لوگ زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم باہر نہ نکلے ، جب صبح ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا، مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔

ان روایات  سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ثابت ہے، فرضیت کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمداً مداومت نہیں فرمائی۔

عہدِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ''موطا امام مالک'' میں ہے کہ  عبد الرحمن بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، کچھ  اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو حضرت ابی بن کعب پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی حضرت ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔

''موطا امام مالک'' میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔

موطأ مالك  ميں ہے:

"عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر بن الخطاب: إني أراني لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد كان أمثل، ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب ، قال: ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، فقال عمر: ‌نعمت ‌البدعة ‌هذه، والتي تنامون عنها أفضل من التي يقومون ، يريد آخر الليل ، وكان الناس يقومون أوله."

(ج:1، ص:109، ط:مؤسسة الرسالة)

موطأ مالك ميں ہے:

"عن يزيد بن رومان ؛ أنه قال: كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب ، ‌في ‌رمضان، ‌بثلاث ‌وعشرين ‌ركعة."

 (ج:2، ص:159، ط:موسسة زايد بن سلطان)

صحیح البخاری میں ہے: 

"عن زيد بن ثابت : «أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها ليالي حتى اجتمع إليه ناس، ثم فقدوا صوته ليلة، فظنوا أنه قد نام، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم، فقال: ما زال بكم الذي رأيت من صنيعكم، حتى خشيت أن يكتب عليكم، ولو كتب عليكم ما قمتم به، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، ‌فإن ‌أفضل ‌صلاة ‌المرء ‌في ‌بيته ‌إلا ‌الصلاة ‌المكتوبة.»"

(ج:9، ص:95، ط:السلطانية)

نصب الرایۃمیں ہے:

'' عن عروة بن الزبير عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح، قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم، إلا أني خشيت أن تفرض عليكم، وذلك في رمضان، انتهى. وفي لفظ لهما: ولكن خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل، وذلك في رمضان، وزاد البخاري فيه في "كتاب الصيام": فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والأمر على ذلك، انتهى. ۔۔۔۔ وعن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القارئ، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل، فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل، ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، فقال عمر: "نعمت البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل عن التي يقومون"، يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله، انتهى. وهذا يدل على أنها تركت إلى زمان عمر، دليل أن عمر جمع الناس على أبي بن كعب، والله أعلم، رواه البخاري أيضاً، وعن أبي ذر نحوه، رواه أصحاب السنن، وحسنه الترمذي، وصححه، وعن النعمان بن بشير نحوه، رواه النسائي، قال النووي في "الخلاصة": بإسناد حسن.

أحاديث العشرين ركعةً: روى ابن أبي شيبة في "مصنفه". والطبراني في "معجمه"، وعنه البيهقي من حديث إبراهيم بن عثمان أبي شيبة عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعةً، سوى الوتر، انتهى. ورواه الفقيه أبو الفتح سليم بن أيوب الرازي في "كتاب الترغيب"، فقال: ويوتر بثلاث، وهو معلول، بأبي شيبة إبراهيم بن عثمان، جد الإمام أبي بكر بن أبي شيبة، وهو متفق على ضعفه، ولينه ابن عدي في "الكامل" ۔۔۔ حديث آخر: موقوف، رواه البيهقي في "المعرفة" أخبرنا أبو طاهر الفقيه ثنا أبو عثمان البصري ثنا أبو أحمد محمد بن عبد الوهاب ثنا خالد بن مخلد ثنا محمد بن جعفر حدثني يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد، قال: كنا نقوم في زمن عمر بن الخطاب بعشرين ركعةً والوتر، انتهى. قال النووي في "الخلاصة": إسناده صحيح، وكأنه ذكره من جهة السنن لا من جهة المعرفة، فإنه ذكره بزيادة.

حديث آخر: رواه مالك في "الموطأ" عن يزيد بن رومان، قال: كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعةً۔ انتهى. ومن طريق مالك، رواه البيهقي في "المعرفة" بسنده ومتنه، وفي رواية في "الموطأ": بإحدى عشرة ركعةً، قال البيهقي: ويجمع بين الروايتين: بأنهم قاموا بإحدى عشرة، ثم قاموا العشرين، وأوتروا بثلاث، قال: ويزيد بن رومان لم يدرك عمر، انتهى."

(ج:2، ص:152، ط:مؤسسة الريان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں