میرے والدنے دو شادیاں کی تھیں، ہم پہلی بیوی سے دو اولاد (ایک بیٹا اور ایک بیٹی)ہیں، دوسری بیوی سے اولاد نہیں ہے، ہماری والدہ کا انتقال ہو چکا ہے، والدہ کے انتقال کے بعد والدہ کا زیور ہماری سوتیلی والدہ کے پاس تھا، اب والد صاحب کا بھی انتقال ہو چکا ہے، والد صاحب نے جائیداد میں ایک مکان ایک دکان اور ایک دوسری پگڑی کی دکان چھوڑی ہے، ان دونوں کی میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟ والد صاحب کے ورثاء میں ایک بیوہ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، والدہ اور والد دونوں کے والدین کا ان سے پہلے انتقال ہو چکا تھا۔
صورتِ مسئولہ میں والد کا ترکہ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ (کفن دفن کے اخراجات) نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو وہ ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (منقولہ وغیر منقولہ) کے کل 24 حصے کرکے 3 حصے بیوہ کو، 14 حصے بیٹے کو اور 7 حصے بیٹی کو ملیں گے، تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
میت:8/ 24
بیوہ | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | |
3 | 14 | 7 |
یعنی کل ترکہ میں سے 12.5 فی صد بیوہ کو، 58.333 فی صد بیٹے کو اور 29.166 فی صد بیٹی کو ملے گا۔
اور والدہ کے زیورات اور دیگر ترکہ تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ والدہ کے ذمہ اگر قرضہ ہو تو ان کے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعد، اگر انھوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ (زیورات وغیرہ یاان کی قیمت) کے کل 96 حصے کرکے 3 حصے بیوہ کو، 62 حصے مرحومہ کے بیٹے کو اور 31 حصے بیٹی کو ملیں گے، تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
میت(والدہ):4/ 96
شوہر | بیٹا | بیٹی |
1 | 2 | 1 |
فوت شدہ | 48 | 24 |
میت(والد):8/ 24۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مف:1
بیوہ(دوسری بیوی) | بیٹا | بیٹی |
1 | 7 | |
3 | 14 | 7 |
یعنی فی صد کے اعتبار سے کل ترکہ (زیور وغیرہ یا ان کی مالیت) میں سے 3.125 فی صد بیوہ کو، 64.583 فی صد والدہ کے بیٹے کو اور 32.291 فی صد بیٹی کو ملے گا۔
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102421
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن