بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کے مکان کی تقسیم کے متعلق سوالات


سوال

میں ایک بیوہ عورت ہوں میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میرے مرحوم شوہر نےاپنی ذاتی رقم سےاپنے نام زمین خرید کر مکان تعمیر کیا تھا۔ دل اور فالج کا عارضہ لاحق ہونے کی وجہ سے مکان میرے نام منتقل کردیا تاکہ ان کے بعد ہم کو رہائشی و دیگر پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ نام منتقلی سے لےکر وفات تک کبھی اپنے ذاتی سامان کے ساتھ عملی طور پر بے دخلی اختیار نہیں کی اور گھر کے معاملات سے کبھی لاتعلق نہ ہوئے، بلکہ وفات تک 13 سال روز اول کی طرح مکمل اختیار، تصرف اور خودمختاری کے ساتھ رہائش پذیر رہے۔

۱۔ بیان کی گئی تفصیل کے مطابق کیا مکان شرعاً مرحوم کی ملکیت مانا جائے گا اور ترکہ شمار کرکے ورثہ میں تقسیم کرنا لازم ہوگا؟ یا پھر مکان شرعاً میرا ہے اورمیں اپنےاختیار کے مطابق کسی بھی اولاد میں اپنی مرضی و منشا سے تقسیم کرسکتی ہوں؟

۲۔ ذاتی ملکیت پر کس حد تک وصیت کرنے کا شرعی اختیار ہے؟

۳۔ مکان  پرانا اورکمزورحالت کی وجہ سے مکمل عمارت کے بجائے صرف زمین کی قیمت کا شمارہورہا ہے۔ ایسے میں کسی بیٹے کا اپنے حصے کےعلاوہ مکان کی تعمیریا کسی بھی مصرف میں لگی رقم کو قرض شمار کرکے الگ سے واپسی کا مطالبہ شرعاً جائزتسلیم ہوگا  جب کہ اس کے پاس پہلے سے کوئی معاہدہ  بھی نہ ہو؟ 

جواب

۱۔ صورت مسئولہ میں مذکورہ مکان صرف آپ کے نام کرنے سے آپ کی ملکیت میں نہیں آیا اس لیے کہ شوہر نے  اس کا مکمل قبضہ اور تصرف آپ کو نہیں دیا تھا لہذا مذکورہ مکان  آپ کے شوہر کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

۲۔ ذاتی ملکیت پر ایک تہائی تک وصیت کرنے کا حق ہوتا ہے اور اگر ایک تہائی سے زائد وصیت کی ہو تو اس زائد وصیت کو نافذ کرنے کے لیے ورثاء کی اجازت شرط ہے۔

۳۔ اگر ایک وارث (بیٹے) کے  قرض کے دعوی کا دیگر ورثاء تسلیم کریں یا وہ وارث شرعی ثبوت سے اس قرض کو ثابت کردے تو اس کے مطابق عمل کیا جائے گا البتہ اگر دیگر ورثاء اس کے دعوی کے انکاری ہوں اور وہ اپنا دعوی شرعی ثبوت سے ثابت نہ کر سکے تو اس کے  دعوی کے مطابق عمل نہیں کیا جائے گا اور مکان کی اس وقت جو مارکیٹ قیمت ہے اس قیمت کے اعتبار سے تقسیم کیا جائےگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة."

(كتاب الهبة، ج5، ص689، سعيد)

و فیہ :

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(كتاب الهبة، ج5، ص670، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں