بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کے گھر میں بغیر کرایہ کلنک چلانا


سوال

1۔۔ ہمارے چھوٹے بھائی نے والد صاحب کے ترکہ کے گھر میں 23 سال سے کلینک چلائی اور ان 23 سال کا کرایہ اس نے ہمیں نہیں دیا، ہم بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ کرایہ دو، چناں چہ  وہ وعدہ کر لیتا کہ دے دوں  گا لیکن کبھی کرایہ نہیں دیا، تو اب سوال یہ ہے کہ ہمیں اس سے کرایہ طلب کرنے کا حق ہے یا نہیں؟

2۔ ۔ان 23 سال میں اس کلینک کے بجلی کا بل 10 لاکھ تک چڑھ گیا تھا جو اس نے ادا نہیں کیا، پھر ہم نے کم کراکر 3  لاکھ پچاس ہزار روپے کر کے ادا کیا، اب سوال یہ ہے کہ یہ بجلی کا بل ہم سب ورثاء کے ذمہ تھا یہ صرف اس کلینک چلانے والے بھائی کے ذمہ، جبکہ کلینک اسی کی ہے۔

3۔ ۔والد صاحب کے ترکہ کے گھر کے بالائی منزل کو ہم نے کرایہ پر دیا تھا، جب تک  والدہ حیات تھی تو ہم سب بہن بھائیوں کی رضامندی سے ہم کرایہ وصول کر کے والدہ کو دیتے تھے، والدہ کے انتقال کے بعد (والدہ کے انتقال کے تقریبا دس سال ہو چکے ہیں) جو دو سال تک خالی رہا پھر دوبارہ کرا یہ پر دیا اور مرمت وغیرہ بھی کی، اور تقریباآٹھ سال سے مکان کا کرایہ میں (بڑا بھائی) لیتا ہوں  اس وقت سے لے کر اب تک سب بھائی بہن خاموش تھے کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپ کرایہ کیوں لیتے ہیں لیکن اب سب کا اعتراض ہے کہ یہ کرایہ تو ہم سب کا مشترک بنتا تھا آپ کیوں لیتے تھے؟ اب سوال یہ ہے کہ یہ جو آٹھ سال سے میں نے کرایہ وصول کیا ہے اس میں میرے دیگر بہن بھائیوں کا بھی حصہ ہے یا نہیں، اور یہ بھی واضح رہےکہ  ان آٹھ سالوں میں گھر کی مرمت وغیرہ جو ہوئی ہے او اس کا خرچہ سارا میں نے اٹھایا ہے۔

جواب

1-۔ صورتِ مسئولہ میں  بھائی 23  سال سے جس  ترکہ کے گھر میں اپنی كلینك  چلا رہے  وہ  مکان مشترک ہے،  لہذا باقی ورثاء اس بھائی سے  مخصوص رقم کی شکل میں کرایہ  کے لینے کاحق رکھتے تھے، تاہم   چوں کہ   کوئی خاص کرایہ طے نہیں ہواتھا،  لہذا اب  کلینک چلانے والے بھائی کے ذمہ گزشتہ عرصے کا کوئی کرایہ نہیں۔

2۔۔کلینک کا جو بھی بجلی کا بل جمع ہوا تھا  اس کی ادائیگی  کلینک چلانے والے چھوٹے بھائی کے ذمہ  ہے۔

3۔۔واضح رہے کہ سائل کے والد کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ  کی  جائیداد  میں اس کے تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک  ہیں، اور اگر ترکہ کی  جائیداد کرایہ پر دی ہوئی ہو اور  ورثاء نے باہمی رضامندی سےاس کو کرایہ پر  بدستور برقرار  رکھا ہو تو اب اس کے کرایہ میں تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوں گے۔ صورت مسئولہ میں مرحومہ والدہ کی وفات کے بعد جب سائل ورثاء کی واضح  رضا مندی کے بغیرترکہ کے گھر کی  بالائی  منزل کا  کرایہ  وصول کر رہا تھا توسائل کے اوپر لازم ہے کہ یہ  پورا   8 سال کا کرایہ  تمام ورثاءکو ان کے شرعی حصص کے مطابق دے دے کیوں کہ  یہ مکان مشترک ہے، اور اس  میں تمام ورثاء کا حق ہے۔ 

     البتہ سائل نے  گھر کی مرمت میں  جو رقم خرچ کی ہے،  تو سائل بقیہ تمام  ورثاء سے ان کے حصہ کے حساب سے  مرمت کا خرچہ لینے کا حق دار ہے۔

مشکاۃالمصابیح  میں ہے:

"قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: ألا لاتظلموا ألا لايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

(باب الغصب والعاریة، 1/ 261،ط: رحمانیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ان نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموالحيث إن الغرم بالغنم."

(کتاب القسمة، مطلب لکل من الشرکاء السکنی في بعض الدار بقدر حصته، 6/ 268، ط: سعید)

شرح المجلۃ   میں ہے:

’’الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم."

(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،4/ 14، المادۃ :1073،ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(بنى أحدهما) أي أحد الشريكين (بغير إذن الآخر) في عقار مشترك بينهما (فطلب شريكه رفع بنائه قسم) العقار (فإن وقع) البناء (في نصيب الباني فبها) ونعمت (وإلا هدم) البناء، وحكم الغرس كذلك، بزازية.
و في الرد تحته: (قوله: بغير إذن الآخر) وكذا لو بإذنه لنفسه لأنه مستعير لحصة الآخر، وللمعير الرجوع متى شاء. أما لو بإذنه للشركة يرجع بحصته عليه بلا شبهة رملي على الأشباه (قوله: وإلا هدم البناء) أو أرضاه بدفع قيمته ط عن الهندية.
أقول: وفي فتاوى قارئ الهداية: وإن وقع البناء في نصيب الشريك قلع وضمن ما نقصت الأرض بذلك اهـ وقد تقدم في كتاب الغصب متنا أن من بنى أو غرس في أرض غيره أمر بالقلع وللمالك أن يضمن له قيمة بناء أو غرس أمر بقلعه إن نقصت الأرض به، والظاهر جريان التفصيل هنا كذلك، تأمل."

(كتاب الشركة، 6/ 268، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100719

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں