بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ اگر کتابوں کی شکل میں ہو تو اس کی تقسیم کیسی ہوگی؟


سوال

ایک شخص جس نے اپنے پیچھے کتب کا ایک نادر و نایاب ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس ذخیرہ میں اس شخص کی اپنی کتب کے ساتھ ساتھ اس کے آباؤاجداد کی کتب بھی ہیں جو نادر و نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ قلمی بھی ہیں۔ آباؤاجداد کی کتب اس شخص کے ایک بیٹے نے سنبھال رکھی ہیں جس کا اس نے باقاعدہ خیال رکھا اور جو اس کے پاس نہیں تھیں وہ دیمک نے چاٹ لیں۔جب کہ اس شخص کی اپنی ذاتی کتب اس کے دوسرے بیٹے نے سنبھال رکھی ہیں ۔ کچھ اختلافات کی وجہ سے ایک بیٹا کہتا ہے کہ آباؤاجداد کی کتب تقسیم ہونی چاہیں۔ آباؤاجداد کے ورثاء سینکڑوں ہیں۔ آیا ان کتب کو تقسیم کرنا چاہیے یا نہیں اگر تقسیم کیا جائے تو کیسے؟

جواب

آباء و اجداد کی کتب ان کی میراث ہے،اگر ورثاء  ان سے استفادہ کرنے کے اہل ہوں تو نمبر وار ان سے استفادہ کریں گے، اور اگر تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو پھر  ان کی تقسیم  قیمت کے اعتبار  سے ہوگی، اگر رقم تقسیم کرنا چاہیں تو مارکیٹ میں ان کی مالیت لگائی جائے اور اگر کتابوں کی صورت میں تقسیم کرنا چاہیں تو ہر ہر کتاب کی مالیت لگاکر پورے پورے سیٹ کے اعتبار سے تقسیم کی جائے، ایسی تقسیم نہ کی جائے کہ سیٹ خراب ہو۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لا تقسم الكتب بين الورثة ولكن ينتفع بها كل واحد بالمهايأة ولو أراد واحد من الورثة أن يقسم بالأوراق ليس له ذلك ولا يسمع هذا الكلام منه ولا تقسم بوجه من الوجوه، ولو كان صندوق قرآن ليس له ذلك أيضا وإن تراضوا جميعا فالقاضي لا يأمر بذلك ولو كان مصحف لواحد وسهم من ثلاثة وثلاثين سهما منه للآخر فإنه يعطى يوما من ثلاثة وثلاثين يوما حتى ينتفع ولو كان كتابا ذا مجلدات كثيرة كشرح المبسوط فإنه لا يقسم أيضا ولا سبيل إلى القسمة في ذلك، وكذا في كل جنس مختلف، ولا يأمر الحاكم بذلك ولو تراضيا أن تقوّم الكتب ويأخذ كل واحد بعضها بالقيمة بالتراضي يجوز وإلا فلا كذا في جواهر الفتاوى.".

(الفتاوى الهندية: كتاب القسمة، الباب  في بيان كيفية القسمة (5/ 205)، ط. رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الجواهر: لا تقسم الكتب بين الورثة، ولكن ينتفع كل بالمهايأة، ولا تقسم بالأوراق ولو برضاهم، وكذا لو كان كتابا ذا مجلدات كثيرة، ولو تراضيا أن تقوّم الكتب ويأخذ كل بعضها بالقيمة لو كان بالتراضي جاز وإلا لا خانية".

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب القسمة (6/ 261)، ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307102266

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں