والدکے انتقال کے بعدان کی جائیدادکی تقسیم کامسئلہ درپیش ہے،اوراس سلسلےمیں آپ کی رہنمائی درکارہے۔
پہلی بیگم (ہماری والدہ)کودس سال پہلےوالدنےطلاق دےکےدوسری شادی کرلی تھی۔پہلی بیگم سے ہم چاربچے(دوبیٹے، اوردوبیٹیاں )ہیں ، جب کہ دوسری بیگم سے کوئی اولادنہیں ہے۔ایسے میں ان بیوہ (یعنی دوسری بیگم ) کاشرعی حصہ کیابنے گا؟ یادرہےکہ ان خاتون کی اپنی کوئی اولادنہیں ہے ۔ہم چاروں بچےپہلی بیگم سے ہیں۔
کچھ کاکہناہے کہ چوں کہ ان بیوہ کی کوئی اولادنہیں ہے اس لیےوہ ترکہ کےایک چوتھائی حصہ کی حق داردہے، کچھ کاکہناہے کہ چونکہ والدبےاولاد نہیں تھےاس لیےان بیوہ کاحصہ ایک آٹھواں بنتاہے۔
معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہےاورفتوی درکارہے!
واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسےاولاد نہ ہو تو بیوہ کو مرحوم شوہر کے ترکہ سے ایک چوتھائی حصہ ملتا ہے،اگرمرحوم کی اولادموجودہوتوبیوہ کوترکہ کاآٹھواں حصہ ملتاہے، صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مرحوم کی اولادموجودہے، اگرچہ پہلی بیوی سے ہے،اس لیے بیوہ کومرحوم کے ترکہ میں سےآٹھواں حصہ ملے گا، اوروالدمرحومکے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کےحقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کےبعد اگرکسی کاکوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ کو48 حصوں میں تقسیم کرکے6حصے بیوہ کو، 14 حصےہرایک بیٹے کواور7حصےہرایک بیٹی کو ملیں گے ۔
صورت تقسیم یہ ہے:8/ 48
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||
6 | 14 | 14 | 7 | 7 |
یعنی سوروپے میں سے 12.50روپےبیوہ کو،29.166روپےہرایک بیٹے کو، اور14.583روپے ہرایک بیٹی کوملیں گے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100089
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن