بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں اور بھتیجے،بھتیجیوں کےدرمیان ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب اور میرے چچا دو بھائی تھے اور ان کی پانچ بہنیں تھیں ، ان میں سے ایک بہن یعنی میری پھوپھی کی اولاد نہیں تھی اور وہ میرے والد اور میرے چچا کے بعد فوت ہوئی ہے۔

میرے چچا کے تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں اور میں اپنے والدین کا ایک بیٹا ہوں اور میری تین بہنیں ہیں اور میری باقی پھوپھیوں کی بھی اولاد ہے ۔

میری مرحومہ پھوپھی جس کی اولاد نہیں تھی، اس کی زرعی جائیداد کی وراثت کا طریق کار بتا دیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی مرحومہ پھوپھی کےترکہ کی تقسیم کاشرعی طریقہ یہ ہےکہ مرحومہ کےحقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کےاخراجات نکالنےکےبعد ،اگران کےذمہ قرض ہوتواس کوکل ترکہ سےاداکرنےکےبعد،اگرانہوں نےکوئی جائز وصیت کی ہوتواس کوباقی ترکہ کےایک تہائی حصہ میں سے نافذکرنےکےبعد بقیہ ترکہ کو12حصوں میں تقسیم کرکے،2،2حصےمرحومہ کی ہرایک بہن(سائل کی دیگر پھوپیوں )کواور1،1حصہ سائل سمیت مرحومہ کےہرایک بھتیجےکوملےگا،جب کہ بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں شرعی طور پر مرحومہ کے ترکہ میں شرعاًحق دار نہیں  ہیں۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:12/3

بہنبہنبہنبہنبھتیجابھتیجابھتیجابھتیجابھتیجیاںبھانجے/بھانجیاں
21محروم
22221111۔

یعنی فیصدی کےاعتبارسے16.66فیصد مرحومہ کی ہرایک بہن کواور8.33فیصد اس کےہرایک بھتیجےکوملےگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" أن ابن الأخ لايعصب أخته، كالعم لايعصب أخته، و ابن العم لايعصب أخته، و ابن المعتق لايعصب أخته، بل المال للذكر دون الأنثى؛ لأنها من ذوي الأرحام، قال في الرحبية: و ليس ابن الأخ بالمعصب ... من مثله أو فوقه في النسب." 

(کتاب الفرائض، فصل في العصبات، 783/6، ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں