بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختم قرآن پر اجرت لینے کاحکم


سوال

 ہماے علاقے  میں یہ دستور ہے  کہ تراویح  میں  ختم قر آن  پر  کپڑے  جوتے  اور  رقم  پیش کرتے ہیں ، جب کہ حافظ قرآن   کے طرف سے کوئی  تعین  نہیں  ہوتا ،  ہاں  دل  میں یہ  تمنا  رہتی ہے  کہ ختم پر  ضرور  کچھ  دے گا ، یہ رقم  اگر حرام  ہے تو اس کا مصرف  کیا ہے ، اگر خود  استعمال  کیا تو یہ بھی  عام  حرام کی طرح    حرام ہے  یا کچھ  گنجائش  ہے؟  اس ميں بعض دفعہ  تو حافظ  قرآ ن  کی طرف  سے یہ تصریح  بھی  ہوتی  ہے  کہ مجھے  کچھ  بھی  نہ دو  اور  نہ  ہی  دل  میں  یہ تمنا  رہتا ہے  کہ  ختم  قرآن  پر  کچھ  دے گا ، پھر  بھی  آخر  میں  ضرور کچھ  نہ کچھ رقم  دے ہی  دیتا ہے  تو  اس  کے لیے لینا جائز  ہے کہ  نہیں  ؟  اگر لیا  تو استعمال  کرنا کیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح میں قرآنِ مجید سناکرقاری  کے لیے اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا، اگر  کوئی  بغیر  اجرت  کے  سنانے  والا  نہیں  مل رہاہوتو   مختصر سورتوں سےتراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح  کی سنت ادا ہوجائےگی۔ اسی طرح قرآن مجید سننے پر بھی اجرت کا لینا دینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر  قاری یا سامع کو بلاتعیین ہدیہ کے طور پر کچھ دے دیاجائےاورنہ  دینے پر ان کو کوئی شکایت بھی نہ ہو اور  وہاں بطورِ اجرت لینے دینے کا عرف ورواج  بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِ     جوازمیں داخل ہوسکتی ہے،لیکن  اگر  وہاں  پر پہلے سےلینے دینے  کا رواج ہو   تو یہ بھی اجرت کے  حکم  میں ہے  اور ناجائز ہے  ۔بہرحال اگر اجرت مشروط یا معروف نہ ہو تو ختم قرآن کے ہدایا استعمال کرنے میں حرج  نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأن القراءة لشيء من الدنيا لاتجوز، وأن الآخذ والمعطي آثمان؛ لأن ذلك يشبه الاستئجار على القراءة، ونفس الاستئجار عليها لايجوز، فكذا ما أشبهه كما صرح بذلك في عدة كتب من مشاهير كتب المذهب؛ وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن، ولا ضرورة في جواز الاستئجار على التلاوة كما أوضحت ذلك في شفاء العليل."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت، مطلب: في بطلان الوصیة بالختمات و التھالیل، ج:2، ص:73، ط:سعید)

و فیه أیضًا:

"و قال العيني في شرح الهداية: و يمنع القارئ للدنيا، و الآخذ و المعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأنّ فيه الأمر بالقراءة و إعطاء الثواب للآمر و القراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر و لولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبًا و وسيلةً إلى جمع الدنيا -إنالله و إنا إليه راجعون-."

(کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص:56، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں