بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختم قرآن پر اجرت لینے کا حکم


سوال

میں ایک حافظ قرآن ہُوں اور میں الحمدُ للّہ 10 سال سے تراویح پڑھا رہا ہُوں، لیکِن مُجھے یہ نہیں پتا تھا کہ  تراویح پڑھانے پرلوگ  جو پیسہ دیتے ہیں  وہ جائز نہیں ،میں اپنے استاذ محترم کے ساتھ مسجد میں تراویح پڑھا تاتھا، میرے استاذ اُس مسجد کے امام بھی ہیں، میں اُن کے ساتھ تین سال سے تراویح پڑھا رہا ہوں ،اُس محلّے میں ختم تراویح پر پیسہ دینے کا رواج بھی ہے ،لیکِن  میرا یہ ارادہ نہیں تھا کہ  مُجھے پیسہ ملےگا ، بلکہ میری نیت یہ تھی کی مُجھے پیسہ ملے یا نہ ملے، مُجھے صرف تراویح پڑھانا ہےاور تراویح کے دوران ہی میرے استاذ محترم مدرسہ کے چندے کے لیے باہر چلے جاتے ہیں اور پھر میں اُن کی جگہ پابندی اور ذمےداری کے ساتھ امامت کرتا ہُوں 10 یا 12 دونوں تک ، اور اُن کے ہوتے ہوئے بھی وہ مُجھے امامت کے لیے آگے بڑھا دیتے ہیں ،اب پوچھنا یہ ہے یہ پیسے جو میں نے لیے ہیں ،کیا میرے لیے جائز ہیں ؟اگر یہ پیسے میرے لیے جائز نہیں تو میرے دوست  نےجو مجھ سے 10 ہزار قرضہ لیا ہے اور وہ وہی پیسے تھے جو تراویح میں ختم قرآن کے بعد ملے تھے، اب اگر وہ پیسے مجھے واپس کرے تو وہ پیسے میرے لیے جائز ہوں گے یا نہیں؟

جواب

واضح  رہے کہ  اگر کسی علاقے میں تراویح کے موقع پر پیسے لینے دینے کا رواج نہ ہو ،اور نہ حافظ صاحب سے پہلے سے کچھ متعین کیا ہو تو ایسی صورت میں اگر نمازی حضرات انفرادی طور پر حافظ صاحب کو ہدیہ کے طور پر کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں اور حافظ صاحب کے لیے لینا بھی جائز ہے، لیکن اس کے بارے میں چندہ کرنا یا پہلےسے اجرت طے کرنا جائز نہیں ۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل  کے لیے پہلے سےکچھ رقم متعین نہیں کی گئی تھی اور آخر میں چندہ کیے بغیر لوگوں نے انفرادی طور پر  اپنی طرف سے یہ رقم سائل   کو دی تو سائل کےلیے لینا اور اپنے ضرورت پر استعمال کرنا جائز ہے، اسی طرح  جو رقم  سائل نے اپنے دوست کو دی ہے اگروہ رقم ملنے کے وقت مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی گئی تھی، تو اسے  واپس لینے کے بعد  استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

تنقیح فتاوی حامدیہ میں ہے:

"‌ولا ‌شك ‌أن ‌التلاوة ‌المجردة عن التعليم من أعظم الطاعات التي يطلب بها الثواب فلا يصح الاستئجار عليها؛ لأن الاستئجار بيع المنافع وليس للتالي منفعة سوى الثواب ولا يصح بيع الثواب ولأن الأجرة لا تستحق إلا بعد حصول المنفعة للمستأجر والثواب غير معلوم فمن استأجر رجلا ليختم له ختمة ويهدي ثوابها إلى روحه أو روح أحد من أمواته لم يعلم حصول الثواب له حتى يلزمه دفع الأجرة ولو علم حصوله للتالي لم يصح بيعه بالأجرة فكيف وهو غير معلوم بل الظاهر العلم بعدم حصوله؛ لأن شرط الثواب الإخلاص لله تعالى في العمل والقارئ بالأجرة إنما يقرأ لأجل الدنيا لا لوجه الله تعالى بدليل أنه لو علم أن المستأجر لا يدفع له شيئا لا يقرأ له حرفا واحدا خصوصا من جعل ذلك حرفته ولذا قال تاج الشريعة في شرح الهداية إن قارئ القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ."

[كتاب الإجارة، ج:2، ص:127، ط: دار المعرفة]

فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں مذکورہےکہ:

"مصلیوں میں سےاگر کوئی صاحب ِ خیر حافظ صاحب کے افطار وسحری وغیرہ کا انتظام کردیں اور آخر میں بطورِ ہدیہ یا بطورِ امداد کچھ پیش کریں تو یہ قابلِ اعتراض نہیں ، بطورِ اجرت دینا ممنوع ہے۔"

(مسائل تراویح، ج:6، ص:257، ط:دارالاشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"متاخرین فقہائے حنفیہ نے امامت کی اجرت لینے دینے کے جواز کا فتوی دیا ہے،پس اگر  امام مذکور سے معاملہ امامت نماز کے متعلق ہواتھا تو درست تھا ۔"

(کتاب الصلاۃ، ج:3، ص:410، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں