بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تقوی كے حصول کا طریقہ


سوال

تقوی کیسے حاصل کریں؟

جواب

   تقوی کہتے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، اپنی استطاعت کے بقدران کی بجاآوری کرنا اور جن چیزوں سے منع کیا ہے ان سے اجتناب کرنا،حصولِ تقوی کے اسباب میں سے یہ ہے کہ آدمی متقی لوگوں کی صحبت اختیار کرے،چناچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تقوی اختیار کرنے کا حکم دینے کے ساتھ ہی صادقین کی معیت اختیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے،اسی طرح  روزہ رکھنابھی  حصولِ تقوی کا وسیلہ اور سبب ہے؛ اس لیے کہ اس سے نفس پر قدرت اور غلبہ حاصل ہوتا ہے،اور  خواہشات  کو ترک کرنا آسان ہوتا ہے،

نیز حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ مشتبہ چیزوں سے بچنا بھی تقوی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، چناچہ ایک حدیث میں ہے ” بندہ اس وقت تک کامل پرہیزگاروں (متقیوں ) کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی قباحت نہيں؛ تاکہ وہ ان چیزوں سے بچ سکے جن میں قباحت ہے،باقی  اس کے ساتھ ساتھ حصول ِ تقوی کی ماثور دعاؤں کا بھی اہتمام کریں،حدیث شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے:

"اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدٰى وَالتُّقٰى ‌وَالْعَفَافَ ‌وَالْغِنٰى."

ترجمہ:"اے میرے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ہدایت اور تقوی اور پاکدامنی اور مخلوق کی نا محتاجی۔"

ایک دوسری دعا یہ ہے:

"رَبِّ ‌أَعْطِ ‌نَفْسِيْ تَقْوَاهَا زَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكّٰهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا."

"اے میرے رب! میرے نفس کو تقوی سے آراستہ فرما اور (اس کی گندگیاں دور فرماکر) اس کو پاکیزہ بنادے، تو ہی سب سے اچھا پاکیزہ بنانے والاہے، تو ہی اس کا والی اور مالک و مولی ہے۔"

قرآن مجید میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ."(التوبة119)

ترجمہ:"اے ایمان والو الله تعالیٰ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔"(بیان القرآن)

” اس آیت میں عام مسلمانوں کو تقوٰی کیلئے ہدایت فرمائی گئی، اور"كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ "میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا کہ صفت تقوٰی حاصل ہونے کا طریقہ صالحین و صادقین کی صحبت اور عمل میں ان کی موافقت ہے۔“ (معارف القرآن)

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ." ( بقرة183)

ترجمہ:"اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے (امتوں کے) لوگوں پر فرض کیا گیا تھا اس توقع پر کہ تم (روزہ کی بدولت رفتہ رفتہ) متقی بن جاؤ"۔(بیان القرآن)

”یعنی روزہ سے نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑیگی تو پھر اس کو ان مرغوبات سے جو شرعا حرام ہیں روک سکو گے اور روزہ سے نفس کی قوت و شہوت میں ضعف بھی آئے گا تو اب تم متقی ہوجاؤ گے بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہوجائے اور متقی بن جاؤ۔“(تفسیر عثمانی)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن عطية السعدي - وكان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يبلغ العبد أن يكون ‌من ‌المتقين حتى يدع ما لا بأس به حذرا لما به بأس."

(أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ج:4، ص:444، ط:دار الرسالة العالمية) 

ترجمه:"بندہ اس وقت تک پرہیزگاروں میں شامل نہیں ہوسکتا جب تک وہ چھوڑ نہ دے اس کام کو جس کے کرنے میں سختی نہیں ہے،اس کام سے ڈرتے ہوئے جس کام کے کرنے میں سختی ہے۔"(تحفۃ الالمعی)

مسند احمد ميں ہے:

"عن عائشة أنها فقدت النبي صلى الله عليه وسلم من مضجعه، فلمسته بيدها، فوقعت عليه وهو ساجد، وهو يقول: " رب ‌أعط ‌نفسي تقواها، زكها أنت خير من زكاها، أنت وليها ومولاها." 

(ج:42، ص:492، ط:مؤسسة الرسالة)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه « كان يقول: اللهم إني أسألك ‌الهدى ‌والتقى، والعفاف والغنى ."

(‌‌كتاب الذكر، والدعاء، والتوبة، والاستغفار، ‌‌باب التعوذ من شر ما عمل، ومن شر ما لم يعمل، ج:8، ص:81، ط:دار طوق النجاة)

دلیل الفالحین میں ہے:

"فتقوى العبد أن يجعل بينه وبين ما يخشاه وقاية تقيه منه، وهي امتثال أوامره تعالى واجتناب نواهيه بفعل كل مأمور به وترك كل منهي عنه حسب الطاقة، من فعل ذلك فهو من المتقين."

(باب فی التقوی، ج:1، ص:250، ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں